Maktaba Wahhabi

705 - 829
جواب: نمازِ تراویح مسنون صرف آٹھ رکعات ہیں جس طرح کہ ’’صحیحین‘‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں تصریح ہے۔[1] حرمین شریفین میں اس پر اضافہ صرف عام نوافل کی حیثیت سے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اور رات کے آخری حصہ میں آٹھ رکعات کا مزید اضافہ کر لیتے ہیں۔ ان کا یہ عمل عمومی احادیث کی بناء پر ہے، جن میں مطلقاً نفلی نماز پڑھنے کی ترغیب وارد ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے نزدیک أقرب إلی الصواب (سب سے صحیح) بات یہ ہے، کہ صرف آٹھ رکعات پر اکتفاء کیا جائے جس طرح کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں وضاحت ہے۔[2] مسئلہ ہذا پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ ماہنامہ محدث میں کئی سال پہلے بعنوان رکعات تراویح میں سنت نبوی اور تعامل صحابہ شائع ہو چکا ہے۔ جو سولہ صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں مختلف اعتراضات کا بھی خوب جائزہ لیا گیا ہے اور کتاب ’’أنوار المصابیح‘‘ بھی لائقِ مطالعہ ہے۔ جو نامور محقق مولانا نذیر احمد مرحوم کا عظیم شاہکار ہے۔ ثواب کی نیت سے بیس تراویح پڑھنے میں کوئی حرج تو نہیں؟ سوال: مسجدِ حرام میں بیس تراویح باجماعت ادا کی جاتی ہیں۔ انسان اگر ثواب کی نیت سے بیس تراویح پڑھ لے تو اس میں کوئی حرج تو نہیں؟ جواب: سُنیّت کے اعتقاد سے صرف آٹھ تراویح ہیں۔ عام نوافل کی حیثیت سے انسان بلاقید زیادہ بھی پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ حدیث میں ہے: (( فَاَعِنِّی عَلٰی نَفسِکَ بِکَثرَۃِ السُّجُودِ)) [3]’’ یعنی نوافل کثرت سے پڑھ۔‘‘ بیس تراویح نماز: سوال: ہم اہل الحدیث اس پورے علاقے میں چند ایک ہی ہیں اور ہر جگہ ہمیں اپنی پانچوں وقت کی نمازیں برادرانِ احناف کے ساتھ اُن کی مسجدوں میں جا کر پڑھنی ہوتی ہیں۔ رمضان شریف میں یہ حضرات بیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں اور وِتر پڑھنے کا بھی اُن کا طریقہ الگ ہے جب کہ ہماری تراویح کی رکعتوں کی تعداد مسنون(آٹھ رکعات) اور وِتر کا طریقہ بھی بحمد اﷲ مسنون ہے لہٰذا عشاء کی نماز اُن کے ساتھ
Flag Counter