Maktaba Wahhabi

221 - 829
تصریح بھی موجود ہے۔ چنانچہ ’’سبل السلام‘‘ میں بحوالہ نسائی ہے: (( اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ ۔ اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ ، فِی الاَذَانِ الاَوَّلِ مِنَ الصُّبحِ )) [1] ابن رسلان کہتے ہیں: ((وَصَحَّحَ ہَذِہِ الرِّوَایَۃَ ابنُ خُزَیمَۃ )) ’’اس روایت کو خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔‘‘ صاحب ’’البدر التمام‘‘ علامہ مغربی فرماتے ہیں: تثویب فجر کی پہلی اذان میں ہے کیونکہ سونے والے کو جگانے کے لیے ہے، اور اذانِ ثانی نماز کے وقت ہونے کا اعلان، اور نماز کی طرف بلانے کے لیے ہے اور نسائی کی سنن کبریٰ میں ہے: (( کُنتُ اُؤذِن لِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ فَکُنتُ اَقُولُ فِی أَذَانِ الفَجرِ الاَوَّلِ : حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ ۔حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ ۔ اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ)) [2] اس سے مطلق روایات مقید ہو گئیں ۔ جن میں صرف اذانِ فجر کا ذکر ہے۔ جب کہ بعض ائمہ حدیث کی تبویبات کا تعلق صرف اطلاق سے ہے۔ (وَالصَّحِیحُ مَا تَقَدَّمَ) پھر دوسری اذان کو اقامت پر محمول کرنا ظاہر کے خلاف ہے۔ جب کہ دو اذانیں مستقلاً ثابت شدہ امر ہے۔ الصلوٰۃ خیر من النوم فجر کی کس اذان میں؟ سوال: اذان میں تثویب یعنی ’’الصلوٰۃ خیرمن النوم‘‘کا فجر کی پہلی اذان میں کہا جانا سنت ہے یا دوسری اذان میں؟ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘میں آپ نے اظہار فرمایا کہ کلماتِ تثویب اذانِ اوّل میں کہے جانے چاہئیں۔ اس پر میں نے اپنے اطمینان کے لئے آپ سے وضاحت چاہی تو آپ نے ’’الاعتصام‘‘مورخہ ۱۴؍اگست ء۱۹۹۸ میں بحوالہ روایات مزید وضاحت کردی۔ میرا مقصد یہ تھا کہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر تعامل صحابہ رضی اللہ عنہ کا صحیح علم ہوسکے۔ اب ایک پرانا کتابچہ ’’اذانِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘مصنفہ مولانا محمد بن ابراہیم جونا گڑھی (ناشر مکتبہ سعودیہ، حدیث منزل، کراچی نمبر۱)نظر سے گذرا جس کے صفحہ پر مولانا موصوف رقم طراز ہیں کہ ’’اذانِ سحری میں ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘نہیں کہا جائے گا (کیونکہ وہ اذانِ فجر کے ساتھ مخصوص ہے۔) اور اذانِ فجر میں یہ مقولہ دوبار دہرایا جائے گا۔ گویا دوسری اذانِ صلوٰۃ الفجر میں ہی تثویب کا عمل قرار پایا۔ جیسا کہ ہند وپاک نیز سعودی عرب میں بھی رائج ہے۔ علماء کی اس پر تنقید قبل ازیں ہماری شنید میں نہیں آئی۔
Flag Counter