Maktaba Wahhabi

117 - 829
ہمیں اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے دُبر کے بال مونڈے ہوں۔ نیل الأوطار (۱؍۱۲۳۔۱۲۴) اس تشریح سے واضح ہو گیا کہ خادوں اور خصیتین وغیرہ پر موجود بالوں کو بھی صاف کرناچاہیے۔ البتہ ناف کے نیچے کی متصل حد شاید اس میں شامل نہ ہو۔ ۲۔ بوڑھا یا کمزور آدمی جس کے ہاتھ کانپتے ہوں ان کے لیے یہ ہے کہ وہ پوڈر وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے جواز کی تصریح کی ہے۔ ۳۔ شوگر کا مریض بھی پوڈر کو استعمال میں لائے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسی طرح بال کترے یا اکھاڑے بھی جا سکتے ہیں اگرچہ افضل مونڈنا ہے۔ ۴۔ زیرِ ناف بالوں کی صفائی کا وقفہ چالیس دن سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے حسبِ ضرورت صفائی ہو سکتی ہے۔ حدیث میں ہے: ((أَن لَّا نَترُکَ أَکثَرَ مِن أَربَعِینَ لَیلَۃً)) [1] زیر ناف بال کہاں سے کہاں تک اتارے جائیں؟ سوال: بال ناف کے انتہائی نیچے سے اتارے جائیں گے یا کچھ جگہ چھوڑ کر ، نیز بال اتارنے کی حد کیا ہے یعنی کہاں سے کہاں تک اتارے جائیں گے؟ جواب:بال شرمگاہ کے اُوپر اور قرب و جوار سے اتارنے کی بھی اجازت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((فَحَصَلَ مِن مَجمُوعِ ھٰذَا، اِستِحبَابُ حَلقِ جَمِیعِ مَا عَلَی القُبُلِ وَالدُّبُرِ وَحَولِھِمَا)) [2] ’’یعنی مجموعہ دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ قُبل اور دُبر(یعنی آگے اور پیچھے) دونوں (طرف) سے (مکمل) بال صاف کرنا مستحب ہے۔‘‘ زیر ناف بالوں کی صفائی کی حدود کیا ہیں؟ سوال: زیر ناف بالوں کی صفائی کا کیا حکم ہے ؟ بال کہاں تک صاف کرنے چاہییں؟ کیا فضلہ کے مخرج کے گرد بال صاف کرنے جائز ہیں؟ جواب: زیر ناف بالوں کا صاف کرنا ضروری ہے، شرمگاہ کے اوپر اور قرب و جوار سے صفائی کی جائے، اسی طرح عورت کی شرم گاہ کے گرد بالوں کی صفائی بھی ضروری ہے ۔ امام نووی فرماتے ہیں: آگے پیچھے اور ان کے
Flag Counter