Maktaba Wahhabi

809 - 829
یعنی’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم زوالِ شمس کے بعد جمعہ پڑھتے تھے۔‘‘ امام موصوف نے دیگر احادیث کے علاوہ اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ جمعہ زوال کے بعد پڑھنا چاہیے اور قبل از زوال جمعہ پڑھنے کی کوئی صحیح صریح حدیث موجود نہیں۔[1] آج ۹؍ اپریل کو زوال نصف النہار بارہ بج کر پانچ منٹ پر ہے۔ آپ کا نقل کردہ وقتِ زوال درست نہیں۔ دوبارہ نقشوں کی طرف مراجعت کریں۔ غرض ساڑھے بارہ بجے جمعہ کا آغاز درست وقت ہے بلکہ اس سے قبل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آج کل زوال بارہ بج کر پانچ منٹ پر ہے۔ جمعہ کے دن زوال سے تو انکار نہیں ہو سکتا وہ تو ایک حتمی اور یقینی شے ہے۔ اس کا وقوع لازمی امر ہے ہاں کئی ایک اہل علم کے نزدیک نوافل کی بلا استثناء عمومی اجازت ہے، زوال کا اعتبار نہیں۔اسی طرح جمعہ کی فضیلت کی گھڑیوں میں جو نماز کی ترغیب ہے وہ جواز کی واضح دلیل ہے۔ مشار الیہ روایت ابوقتادہ اگرچہ منقطع ہے کیونکہ ابو الخلیل کا ابوقتادہ سے سماع نہیں، پھر اس میں لیث بن ابی سلیم راوی ضعیف ہے لیکن بعض نے شواہد کی بنا پر اس کو بھی قابل عمل سمجھا ہے۔ [2] بہرصورت نوافل پہلے پڑھ لیے جائیں۔ زوال کے بعد امام جمعہ کا آغاز کرے گا، صرف دو رکعت نماز ہی نہیں بلکہ خطبہ جمعہ دے گا جس طرح سنت سے ثابت ہے۔ جمعہ کے انعقاد کا وقت: سوال: جمعۃ المبارک کے متعلق احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جمعہ بہت جلد ادا کیا جاتا تھا جب کہ بخاری شریف ’’باب التبکیر بالجمعۃ‘‘ میں ہے کہ ہم دوپہر کا کھانا اور سونا جمعہ سے فارغ ہو کر کھاتے اور سوتے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ ہم جمعہ سے فارغ ہوتے تو دیواروں کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔ آج کل بہت جگہ اہلِ حدیث حضرات بھی جمعہ ڈیڑھ بجے تا دو بجے پڑھاتے ہیں، جو مذکورہ احادیث کے خلاف ہے۔ کیا ان لوگوں کا جمعہ صحیح ہو جاتا ہے؟ بصورتِ دیگر بذریعہ تحریر عوام کو ہدایت کی جائے کہ جمعہ ایک بجے سے پہلے پہلے ادا کیا جائے۔ بینوا بالدلیل توجروا من اللّٰہ ۔ جواب: واقعی جمعہ کا انعقاد ظہر کے ٹائم کے اندر ہونا چاہیے۔ اسے لیٹ کر ناخلاف سنت ہے۔ ائمہ وخطباء کرام کو اس امر کا التزام کرنا چاہیے۔ مقامِ خطر ہے کہیں ایسا نہ ہو حصولِ اجر و ادائیگیٔ فرض کے بجائے اسے
Flag Counter