Maktaba Wahhabi

796 - 829
سوال: مسافر آدمی کتنے دن تک قصر نماز پڑھ سکتا ہے؟ جواب: احادیث میں قصر کے لیے کوئی دن مقرر نہیں۔ جب تک آدمی مسافر ہے قصر کر سکتا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: ((أَجمَعَ أَھلُ العِلمِ أَنَّ لِلمُسَافِرِ اَن یَّقصُرَ مَا لَم یَجمَع اِقَامَۃً ، وَ إِن اَتَی عَلَیہِ سِنُون)) [1] ’’اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسافر آدمی جب تک اقامت کی نیت نہ کرے، وہ قصر کر سکتا ہے، اگرچہ اس پر کئی سال گزر جائیں۔‘‘ تاہم اگر اس کی نیت کسی ایک جگہ چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کی ہے تو وہ نماز پوری پڑھے گا۔ کیونکہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی مدت ثابت ہے۔ کیا مدتِ قصر پندرہ دن ہے؟ سوال: نمازِ قصر کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی رخصت پندرہ دن تک ہے، بعض کی رائے میں اس کی رخصت تین دن ہے، جب کہ بعض کا خیال یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں اس کی مقدار مقرر ہی نہیں ہے، ہمیں اس کے بارے میں ٹھوس اور تفصیلی جواب فراہم فرمائیں۔ جواب: اہلِ علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ مسافر کتنے روز تک کسی جگہ اقامت اختیار کر کے قصر نماز پڑھ سکتا ہے۔ مختلف اقوال میں سے راجح بات یہ ہے کہ مسافر قریباً چار روز تک قصر کرے، اگر زیادہ مدت قیام کی نیت ہو تو پوری نماز ادا کرے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقعے پر چار ذوالحجہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور آٹھ تاریخ کو نکلے۔ ان دنوں مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام عزم بالجزم (پختہ ارادے سے) تھا، اس کے علاوہ دیگر روایات جن میں مختلف اعداد کا ذکر ہے، وہ تردد(شک) پر محمول ہیں۔ ان سے عزم وجزم کے ساتھ کسی ایک جگہ قیام کا اظہار نہیں ہوتا، اس لیے ایسی صورت میں (یعنی جب قیام کی مدت متعین نہ ہو) بلا تحدیدِ ایام(دنوں کی تعیین کے بغیر) قصر پڑھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا کسی معقول عارضے کے بغیر بہ حالتِ اقامت قصر نماز پڑھے جانا شکوک وشبہات سے خالی نہیں، جب کہ حدیث میں ہے:((دَع مَا یُرِیبُکَ إِلٰی مَا لَا یُرِیبُکَ)) [2] یعنی مشکوک کام چھوڑ کر یقینی کو اختیار کرنا چاہیے۔
Flag Counter