Maktaba Wahhabi

309 - 829
مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نماز میں صرف کلام سے روکا گیا ہے۔ اشارہ سے نہیں، بلکہ بروایت ابن ابی شیبہ مرسل ابن سیرین اسی قصہ میں نماز میں اشارہ کرنے کا جواز موجود ہے۔ مسجد میں داخل ہونے والا بلند آواز سے سلام کہہ سکتا ہے؟ سوال: مسجد میں جب نمازی نماز پڑھ رہے ہوں تو کیا ہم بلند آواز سے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ سکتے ہیں؟ جواب: بحالتِ ِ نماز بآواز بلند سلام کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا جواب انگلی یا ہاتھ کے اشارہ سے ہونا چاہیے۔ چنانچہ ترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے: (( قَالَ : قُلتُ لِبِلَالٍ کَیفَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَرُدَّ عَلَیھِم حِینَ کَانُوا یُسَلِّمُونَ عَلَیہِ وَ ھُوَ فِی الصَّلَاۃِ ؟ قَالَ: کَانَ یُشِیرُ بِیَدِہٖ)) [1] ’’ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ِ نماز لوگوں کے سلام کا جواب کس طرح دیتے تھے؟ کہا: ہاتھ کے اشارے سے؟‘‘ صاحب ’’مرعاۃ المفاتیح‘‘ فرماتے ہیں: (( وَالحَدِیثُ فِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی جَوَازِ رَدِّ السَّلَامِ فِی الصَّلٰوۃِ بِالإِشَارَۃِ ۔ وَ ھُوَ مَذھَبُ الجَمھُورِ: وَاختَلَفَ الحَنَفِیَّۃُ، فَمِنھُم مَن کَرِھَہٗ، وَ مِنھُم الطَّحَاوِیُ، وَ مِنھُم مَن قَالَ : لَا بَأسَ بِہٖ)) ’’اس حدیث میں اس امر کی دلیل ہے، کہ نماز میں سلام کا جواب اشارے سے ہونا چاہیے۔ جمہور کا مسلک یہی ہے۔البتہ حنفیہ کا اس میں آپس میں اختلاف ہے۔ بعض نے مکروہ کہا اور ان میں الطحاوی ہیں،جب کہ بعض نے کہا ہے، کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ بلاشبہ دلائل کے اعتبار سے راجح اس کا جواز ہی ہے۔ مسئلہ ہذا پر سیر حاصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو! ’’المرعاۃ‘‘ (۲؍۱۲) سوال: نماز با جماعت کے دوران ، جب کہ قرأت بھی شروع ہو چکی ہو، کیا باہر سے آنے والے کے لیے سلام کہنا جائز ہے یا نہیں؟قرآن و سنت کی روشنی میں ذرا وضاحت سے جواب تحریر فرمائیں۔ جواب: بحالتِ ِ نماز سلام کہنا صرف جائز ہی ہے۔ ضروری نہیں، جب کہ اس کا جواب اشارے سے دیا جائے گا۔ زبان سے نہیں۔ چنانچہ ’’سنن ترمذی‘‘ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے
Flag Counter