Maktaba Wahhabi

416 - 829
کلام نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((فَانتَھَی النَّاسُ إِلٰی آخِرِہٖ مُدرَجٌ فِی الخَبَرِ مِن کَلَامِ الزُّھرِیِّ، بَیَّنَہُ الخَطِیبُ۔ وَاتَّفَقَ عَلَیہِ البُخَارِیُّ فِی التَّارِیخِ، وَ أَبُودَاؤٗدَ، وَ یَعقُوبُ بنُ سُفیَانَ، وَالذُّھَلِیُّ، وَالخَطَّابِی، وَ غَیرُھُم )) [1] اور پھر راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بذاتِ خود امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ حنفیہ کا مُسَلَّمَہ اصول ہے، کہ راوی جب اپنی روایت کے خلاف کرے، تو راوی کے عمل کو لیا جاتا ہے، اور روایت کو چھوڑ دیا جاتاہے اور اسی طرح کی صورت حال کچھ ﴿ وَ إِذَا قَرَأَ فَأنصِتُوا﴾(النحل:۹۸) میں بھی ہے۔ کیونکہ یہ جملہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ، لیکن راوی (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) کا عمل اس کے خلاف ہے۔ لہٰذا حنفیہ کو اپنے اصول کی بناء پر ’’فاتحہ خلف الامام‘‘ کا قائل ہونا چاہیے۔‘‘ (والتوفیق بید اللّٰہ) مُقتدی کے لیے ’’فاتحہ‘‘ بالخصوص وقفات میں پڑھنے کا کوئی تَقُیُّد(قید) نہیں۔ تاہم مقتدی کے لیے ضروری ہے، کہ جیسے بھی ممکن ہو،سِرِّی اور جَہری نمازوں میں فاتحہ پڑھے۔ اس بارے میں حضرت مکحول کا تفصیلی فتوٰی ’’سنن أبی داؤد‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے ’’عون المعبود‘‘ (۱؍۳۰۵) اور اگر فاتحہ پڑھتے ہوئے کسی کی کوئی آیت رہ جائے، پھر بھی امام کے ساتھ ’’امین‘‘ کہہ کر بقیہ مکمل کر لے، تاکہ موافقت سے محروم نہ رہے ۔ (واﷲ أعلم) مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ کس طرح پڑھنی چاہیے؟ سوال: مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ ٔفاتحہ پڑھنی ہوتی ہے۔ لیکن بعض مقتدی امام کی قرأت کے ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں، کیا مقتدیوں کو امام کے ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے یا امام کو چاہیے کہ ہر آیت پر وقفہ کرے تاکہ مقتدی اس وقت میں پیچھے تلاوت کرلیں یا پھر مقتدی امام کے ساتھ ہی سورۃ فاتحہ پڑھتا چلا جائے؟ جواب: اہم شیٔ یہ ہے، کہ مقتدی کو امام کی اقتداء میں سورۃ الفاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ شکل جونسی اختیار کر لی جائے درست ہے۔ ملاحظہ ہو سنن ابوداؤد۔ [2] جہری نمازوں میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کا حکم : سوال: جَہری نمازوں میں قرأت خلف الامام کے مسئلہ میں کوئی اختلاف ہے یا یہ متفق علیہ مسئلہ ہے؟ ناصر
Flag Counter