Maktaba Wahhabi

377 - 829
ہو اور دیہات کے لوگ دھڑوں میں تقسیم ہوجائیں۔ ایسا امام مسجد امامت کے قابل ہے اور اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟ جواب: مذکورہ صفات کے حامل شخص کو فوراً امامت سے معزول کردینا چاہیے۔ ’’دارقطنی‘‘ میں حدیث ہے: ((اِجعَلُوا اَئِمَتَکُم خِیَارَکُم)) [1] یعنی ’’ امام بہتر لوگوں کو بنایا کرو۔‘‘ اسی طرح ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ میں حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قبلہ کی طرف تھوکنے پر امامت سے معزول کردیا تھا۔[2] مرقوم وجوہات کی بناء پر مذکورہ شخص بہت بڑا مجرم ہے۔ اس کو فی الفور مصلائے امامت سے علیحدہ کردیا جائے اور اگر وہ زبردستی مصلائے امامت سے چمٹا رہے، اور مقتدی ہٹانے پر قادر نہ ہوں تو اس صورت میں مقتدی مجرم نہیں، اور نہ ان کی نماز میں کوئی خلل آئے گا۔ ان شاء اﷲ۔ نااہل لوگوں کی خطابت و امامت کا حکم: سوال: مسجد کی خطابت کے لیے موجودہ زمانے میں کیا کوئی علمی معیار ہونا چاہیے یا نہیں؟ ایسا آدمی جو نہ تو کسی مدرسہ کا پڑھا ہو اور نہ ہی اس نے باقاعدہ کسی معلم سے دین کا علم سیکھا ہو، حتی کہ دنیاوی تعلیم بھی حاصل نہ کی ہو، خطابت کے فرائض انجام دے سکتا ہے؟ ایک صاحب جو سکول میں ساتویں یا آٹھویں جماعت تک پڑھ سکے اور غالباً اس نے دینی تعلیم بالکل حاصل نہیں کی، ترجمہ قرآن تک نہیں جانتے، پیشہ کے اعتبار سے درزی(ٹیلر ماسٹر) تھے۔تقریباً ۵ برس سعودی عرب میں اسی حیثیت سے ملازمت بھی کرتے رہے ابتدائً کچھ عرصہ تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک رہے ہیں اس لیے کچھ بول سکتے ہیں آج کل ایک مسجد کے خطیب بن بیٹھے ہیں ۔ کیا ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا اور انھیں خطابت کی ذمہ داری سونپنا درست ہے ؟ جو لوگ اس کام میں ان کے ممد و معاون ہیں ان کے بارے اور خود خطیب موصوف کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ نماز کی امامت کے لیے پہلی شرط قرآن کا زیادہ جاننا ہے کیا ایک حافظ قاری کی موجودگی میں ایک جاہل شخص کا از خود امامت کے لیے آگے بڑھنا اور امامت کا فریضہ ادا کرنا درست ہے؟ کافی عرصہ پہلے ایک خطیب صاحب سے یہ روایت سنی تھی کہ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو
Flag Counter