Maktaba Wahhabi

378 - 829
وعظ کرتے سنا تو اس سے دریافت کیا کہ کیا تم ناسخ و منسوخ کا علم جانتے ہو؟ جواباً اس نے نفی کا اظہار کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : ’’ وعظ نہ کرو خود بھی گمراہ ہو گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرو گے۔‘‘ کیا یہ روایت درست ہے ؟ حوالہ درکار ہے۔ جواب: نااہل لوگ خطابت و امامت کے قطعاً حقدار نہیں صحیح حدیث میں ہے: (( اِذَا وُسِّدَ الاَمرُ اِلٰی غَیرِ اَھلِہٖ، فَانتَظِرِ السَّاعَۃَ)) یعنی ’’ معاملات جب نا اہل لوگوں کے سپرد کردیے جائیں، تو قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔‘‘ اس کے ہم معنی اور بھی بہت ساری روایات ہیں، جو کتب احادیث کی طرف مراجعت سے بآسانی دستیاب ہو سکتی ہیں۔ اہلِ علم کے لائق نہیں کہ جاہلوں کے لیے ممد و معاون بنیں۔ ورنہ اس جرم میں وہ بھی شریک کار سمجھے جائیں گے ۔ اہل کی موجودگی میں نااہل کو فرائض کی ادائیگی کے لیے آگے کرنا امانت میں خیانت ہے، جو جرم عظیم ہے ۔قرآن میں ہے:﴿ اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُکُم اَن تُؤَدُّوا الاَمَانَاتِ اِلٰی اَھلِھَا﴾ ’’اﷲ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔‘‘ اہل کی موجودگی میں نا اہل کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔بصورت دیگر منتظمین و معاونین حضرات سب کے سب عدالتِ الٰہی میں جو ابدہ ہوں گے۔ خطرہ ہے کہ کہیں نمازیں ضائع نہ ہو جائیں۔ پھر علماء کے بھی لائق نہیں کہ جرم یا گناہ ہوتا دیکھ کر خاموشی اختیار کریں۔ قیامت کے دن ہر آدمی سے اس کی ذمہ داری کی باز پرس ہو گی۔ اﷲ رب العزت ہم میں فہمِ دین پیدا فرما کر فرائض کی ادائیگی کی کما حقہ توفیق بخشے۔ آمین!حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول علامہ بدر الدین زرکشی کی کتاب’’ البرھان فی علوم القرآن‘‘ میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو!(۲؍۳۴) فوٹوسٹوڈیو چلانے والا امام : سوال: اگر مسجد کا خطیب یا امام جو مقامی جماعت کا امیر بھی ہے ، فوٹو سٹوڈیو کی کمائی اس کا اہم ذریعہ معاش ہے ، گھر میں ٹیلی ویژن ڈش بھی رکھتا ہے اس کے گھر میں غیر محرم بھی عام آتے جاتے ہیں صرف نماز پڑھتے وقت سر ڈھانپتا ہے اور جمعے کے علاوہ کوئی نماز باجماعت ادا نہیں کرتا۔ کیا ایسا شخص دینی جماعت کا امیر رہ سکتا ہے ؟ کیا اس کی اپنی نماز ہو جاتی ہے ؟ کیا اس کے پیچھے مستقل نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ اگر اس کے پیچھے نماز پڑھ کر دہرائی جائے تو؟ جواب: ایسے شخص کو جملہ فرائض اور واجبات سے فوراً معزول کردینا چاہیے۔ یہ امارت و امامت کے لائق
Flag Counter