Maktaba Wahhabi

537 - 829
قعدہ کرے، کیونکہ اس میں نماز کی اصلاح ہے۔المرعاۃ (۲؍۳۱)۔ بعض اہلِ علم کا کہنا ہے، کہ پانچویں رکعت کے ساتھ چھٹی ملالے اور اخیر میں سجدۂ سہو کرے۔ چار فرض اور دو نوافل بن جائیں گے۔ لیکن اس مسلک کی کوئی قابلِ اعتماد دلیل معلوم نہیں ہو سکی۔ البتہ حدیث سے یہ ثابت ہے، کہ پانچویں رکعت کے ساتھ سجدۂ سہو مل کر قائمقام چھٹی رکعت بن کر نماز شفع(جفت) بن جاتی ہے۔[1] جب کہ اصل میں بھی وِتر کی بجائے شفع تھی۔ اصلی کیفیت لوٹ آئی۔ اختلاف کا ذکر ہو چکا ۔ بظاہر ترجیح پہلے مسلک کو ہے۔ جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ صنعانی نے اختیار کیا ہے۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم) مقتدی تکبیر تحریمہ اور تکبیراتِ انتقال اور ’’رَبَّنَا لَکَ الحَمد…الخ‘‘ بھول جائے: سوال: اگر کوئی شخص امام کی اقتداء میں کوئی فرض چیز بھول جائے۔ مثلاً: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ اور تکبیراتِ انتقال اور ’’رَبَّنَا لَکَ الحَمد…الخ‘‘ کا حکم دیا ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے بعض علماء مندرجہ بالا امور کو فرض کہتے ہیں تو ان علماء کے نزدیک اگر مقتدی ان میں سے کچھ بھول جائے یا سورۃ فاتحہ کی چھ آیتیں پڑھے اور رکوع میں جانے کے بعد یاد آئے کہ ایک آیت نہیں پڑھی تو کیا ان امور میں سے کچھ بھولنے پر ( ان علماء کے نزدیک) امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی ایک آیت مزید پڑھ کر سجدۂ سہو کرے؟ جواب: اہلِ علم کے ایک گروہ کے نزدیک یہ امور واجب ہیں۔ جب کہ جمہور علماء اس کے خلاف ہیں۔ بظاہر اوّل الذکر گروہ کے دلائل قوی ہیں۔ لہٰذا ان اُمور میں سے جہاں سے کوئی شے رہ جائے، اس رکعت سے دوبارہ نماز پڑھنی ہو گی۔ اسی طرح جن لوگوں کے نزدیک فاتحہ واجب ہے۔ آیت فوت ہونے کی صورت میں دوبارہ اس رکعت کو پڑھنا ہو گا، کیونکہ فاتحہ کا اطلاق کُل پر ہے۔ بعض پر نہیں۔ یاد رہے آیت کو اپنے محل پر پڑھا جاتا ہے۔ بلا محل تلاوت ناقابلِ اعتبار فعل ہے۔ (الاعتصام، لاہور: ۲ جون ۱۹۹۵ء) سجدۂ سہو کے بعد تشہد کا حکم: سوال: ’’تخریج صلوٰۃ الرسول‘‘ص:۵۰۷، تاریخ اشاعت رمضان ۱۴۱۳ھ میں لکھا ہے۔ سجدۂ سہو کے بعد تشہد۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ احادیث آپس میں مل کر حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہیں۔[2]
Flag Counter