Maktaba Wahhabi

591 - 829
لیکن راجح بات یہ ہے، کہ اذکارِ مسنونہ کاجہر غیر مفرط(یعنی آہستہ آواز) کے ساتھ ذکر کا جواز ہے۔ لیکن اجتماعی شکل و صورت میں نہیں۔ جس طرح کہ اہل بدعت کی عادت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!مرعاۃ المفاتیح(۱؍۷۱۶) نماز کے بعد اذکار بلند آواز سے پڑھیں یا آہستہ: سوال: فرص نمازوں کے بعد جو اذکار پڑھے جاتے ہیں کیا وہ سب کے سب بلند آواز سے پڑھے جائیں گے یا انہیں سراً پڑھنا مسنون ہے؟ مثلاً نماز کے بعد ایک بار اللہ اکبر بلند آواز سے کہنا تو ثابت ہے کیا اَستَغفِرُاللّٰہَ… اَللّٰھُمَّ أَنتَ السَّلَامُ…رَبِّ اَعِنِّی عَلٰی ذِکرِکَ …‘ وغیرہ مسنون اذکار جہراً پڑھے جائیں گے یا انہیں دل میں پڑھا جائے گا؟ جواب: مسئلہ ہذامیں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔اکثر اہلِ علم عدم جواز کے قائل ہیں، جب کہ ایک گروہ جواز کا قائل ہے۔بظاہر جواز ہے۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: (( اِنَّ رَفَعَ الصَّوتِ بِالذِّکرِ حِینَ یَنصَرِفُ النَّاسُ مِنَ المَکتُوبَۃِ، کَانَ عَلٰی عَھدِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم )) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ فرض نمازوں سے فراغت کے وقت بآواز بلند ذکر کرتے تھے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَ فِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی جَوَازِ الجَھرِ بِالذِّکرِ عَقِبَ الصَّلَاۃِ )) [2] ’’اس حدیث میں نماز کے بعد جہری ذکر کا جواز ہے۔‘‘ لیکن ذکر بہت اونچی آواز سے نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ’’صحیح بخاری کی دوسری حدیث میں ہے: (( اِربَعُوا عَلٰی اَنفُسِکُم، فَاِنَّکُم لَا تَدعُونَ اَصَمَّ، وَ لَا غَائِبًا)) … الحدیث [3] مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! مرعاۃ المفاتیح (۱؍۷۱۶) نماز کے بعد آیت الکرسی کا پڑھنا : سوال: نماز کے بعد آیت الکرسی کا پڑھنا کیا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟
Flag Counter