Maktaba Wahhabi

839 - 829
مِنیٰ میں حاجی کے لیے نمازِ عید کا حکم: سوال: آپ کے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ شمارہ۱۳۔۱۹۹۵ء میں لکھا ہے کہ ’’حاجی آدمی مزدلفہ سے واپسی پر ممکن ہو تو نمازِ عید پڑھ لیں۔‘‘ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز حج کے وقت پڑھی تھی؟ آج جو آدمی عید کی نماز پڑھتا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان تو نہ ہو گا؟ کیا حاجی نمازِ قصر بھی ایامِ مِنیٰ میں پڑھ سکتا ہے خواہ وہ مِنیٰ میں ہو یا حرم میں کیا وہ نافرمان تو نہ ہو گا؟ جواب: مسئلہ ہذا میں اہلِ علم کا کچھ اختلاف ہے، لیکن راجح بات یہ ہے، کہ مِنیٰ میں حاجی کے لیے نمازِ عید نہیں۔ اس بات کی واضح دلیل صحیح مسلم میں وارد حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی طویل روایت ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی صفت و کیفیت بیان ہوئی ہے۔اس میں الفاظ یوں ہیں: ((أَتَی الجَمرَۃَ الَّتِی عِندَ الشَّجَرَۃِ، فَرَمَاھَا بِسَبعِ حَصَیَاتٍ۔ یُکَبِّرُ مَعَ کُلِّ حَصَاۃٍ مِنھَا مِثلَ حَصَی الخَذفِ۔ رَمٰی مِن بَطنِ الوَادِی ۔ ثُمَّ انصَرَف اِلَی المَنحَرِ، فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَّ سِتِّینَ بَدَنَۃً بِیَدِہٖ)) [1] یعنی ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس جمرہ کے پاس آئے، جو درخت کے قریب ہے۔ اس کو چھوٹے سات کنکر مارے، جو دو انگلیوں سے مارے جاتے ہیں۔ پھر قربان گاہ کی طرف لوٹ آئے اور پس تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے قربان کیے۔‘‘ اس حدیث میں اس امر کی دلیل ہے، کہ حاجی پر نمازِ عید نہیں، کیونکہ حاجی پر اگر عید ہوتی، تو جمروں سے فارغ ہو کر نمازِ عید پڑھ کر، پھر قربانی کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ قربانی نمازِ عید کے بعد ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رمیٔ جمار سے فارغ ہو کر سیدھا قربان گاہ میں تشریف لے جانا، اس بات کی واضح دلیل ہے، کہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عید نہیں پڑھی۔ ایام منیٰ میں حاجی نماز صرف ’’قصر‘‘ کرے، جمع نہ کرے کیونکہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز پڑھی تھی۔(ملاحظہ ہو! صحیح بخاری وغیرہ) نمازِ عید میں فوت شدہ تکبیرات کاحکم: سوال: نمازِ عید میں مقتدی کے شامل ہونے سے پہلے جو تکبیرات امام ادا کر چکا ہو مقتدی امام کی اقتداء
Flag Counter