Maktaba Wahhabi

624 - 829
کا فتویٰ دیکھا گیا، لیکن مختصراً ’’فتاویٰ علمائے حدیث‘‘ (۲؍۲۱۴) جامعہ سعیدیہ خانیوال۔ پھر دعا کے جواز بلکہ افضلیت ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ (ص:۵۶۴) پر کتاب ،ص:۲۱۸،تک ملاحظہ فرما کر جواب دیں۔ جواب: فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے پر ’’الاعتصام‘‘ میں متعدد دفعہ اجمالاً اور تفصیلاً بحث ہو چکی ہے۔’’ فتاویٰ نذیریہ‘‘ میں بحوالہ ’’ابن ابی شیبہ‘‘ نقل کردہ روایات پر بھی تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے۔ بار بار اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ماحاصل اس کا یہ ہے، کہ اس بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں۔ اسی بناء پر سعودی عرب کے بعض جید علماء مثلاً شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس کو بدعت قرار دیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا، کہ بحالت تشہد سلام پھیرنے سے قبل بکثرت دعائیں کرتے تھے، جن کی تصریح کتب احادیث میں موجود ہے اور سلام پھیرنے کے بعد ذکر اذکار میں مصروف ہو جاتے۔ شریعت میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا : سوال: فرض نماز کے بعد دعا میں بعض لوگ ہاتھ اٹھانے کو بہت ضروری خیال کرتے ہیں اور بعض مستحب، اور بعض محض جواز کے قائل ہیں، کیونکہ ہم نے کئی علماء سے سنا ہے کہ رسول اﷲ صلی الله علیہ وسلم سے فرض نماز کے بعد کی دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا ثابت تو نہیں مگر فرائض کے علاوہ نوافل میں یا بعد میں ہاتھ اٹھا کر دعا کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی بنا ء پر اس جواز کو سنت نبوی یا ثواب نہیں خیال کیا جاتا تاکہ بدعت کے زمرے میں نہ آجائے۔ میں نے مولانا مودودی مرحوم کی زندگی میں ان کا ایک درس سنا، جس میں انھوں نے بھی ایک سوال کے جواب میں یہی کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں۔ آپ کی طرف سے کسی کے سوال کے جواب ہفت روزہ الاعتصام،۸۔ ستمبر ۱۹۹۵ء صفحہ۱۰؍۹۳۶، پر مرقوم ہے کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ ظاہر ہے عدمِ ثبوت کی بناء پر ’’احداث فی الدین‘‘ ہی قرار پائے گا۔ ماہنامہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ کراچی کے صفحہ۴۱، پر ایک سوال کے جواب میں مولانا بشیر الرحمن سلفی کی طرف سے وضاحت ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، اور یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس سنت پر عمل کرنا چاہیے۔ ان کے شائع شدہ موقف کی فوٹو کاپی ارسال خدمت ہے: درج بالا گزارشات کی بناء پر ایک الجھن پیدا ہو گئی ہے۔ وضاحت فرما کر عند اﷲ ماجور ہوں۔ سنت نبوی اور ’’احداث فی الدین‘‘ کو عرش و فرش کے فاصلے سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا اور اس کی عملی صورت پانچ دفعہ روزانہ پیش آتی ہے جس سے اس مسئلہ کی اہمیت عیاں ہے ۔
Flag Counter