Maktaba Wahhabi

513 - 829
((وَلَا تَرکَعُوا حَتّٰی یَرکَعَ، وَ لَا تَسجُدُوا حَتّٰی یَسجُد)) [1] یعنی تم رکوع مت کرو۔ یہاں تک کہ امام رکوع کرے اور تم سجدہ مت کرو یہاں تک کہ امام سجدہ کرلے۔ پھر فرماتے ہیں: (( وَ ھِیَ زَیَادَۃٌ حَسَنَۃٌ تَنفِی اِحتَمَالَ اِرَادَۃِ المُقَارَنَۃِ مِن قَولِہٖ: ((اذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا)) [2] ’’یہ ایک اچھی زیادتی ہے۔ اس سے ’’جب امام تکبیر کہے۔ تب تم تکبیر کہو‘‘ میں جو مقارنت کا احتمال ہے اس کی نفی ہوتی ہے۔‘‘ رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا رکوع سے کھڑے ہو کر سینہ پر ہاتھ باندھنے کی دلیل: سوال: بعض لوگ رکوع سے کھڑے ہو کر سینہ پر ہاتھ باندھتے ہیں اور دلیل پیش کرتے ہیں:’’اذا قام…الخ‘‘کیا حدیث ِ مذکور سے یہ استدلال صحیح ہے؟ جواب: نماز میں بعد از رکوع ہاتھ باندھنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔’’اذَا قَامَ ‘‘ اتنا عام نہیں جتنا کہ ان لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ بالفرض اگر ((اذَا)) کو عام مان لیا جائے، تو بتائیے! قرآن کی ان آیات کا مفہوم کیا ہوگا؟ ﴿ وَإِذَا قُرِیَٔ عَلَیھِمُ القُرآٰنَ لَا یَسجُدُونَ﴾ (الانشقاق:۲۱) ’’اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔‘‘ ﴿إِذَا تُتلٰی عَلَیھِم اٰیٰتُ الرَّحمٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا﴾ (مریم:۵۸) ’’ جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی تھیں، تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے رہتے تھے۔‘‘ ﴿وَإِذَا قُرِیَٔ القُراٰنَ فَاستَمِعُوا لَہٗ وَانصِتُوا لَعَلَّکُم تُرحَمُونَ﴾(الاعراف:۲۲) ’’اور جب قرآن پڑھا جائے، تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ اصل بات یہ ہے کہ ((اذَا)) کا عموم اپنے محل و مقام کی مناسبت کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ جیسا ان لوگوں نے سمجھا ہے۔ (والتوفیق بید اللّٰہ) اس بارے میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا نظریہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
Flag Counter