Maktaba Wahhabi

190 - 829
حصے کی منظور ی نہیں ہے جبکہ یہ حصہ تقریباً ۳۵ سال سے عملاً مسجد میں شامل ہے۔ (عبدالقیوم، رئیس دارالعلوم محمدیہ) جواب:حکومت کی جگہ ضرورت سے زائدہو تو اس کوزیر استعمال لانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ شرعاً قومی مال میں اصل چیز تصرف کا جواز ہے بشرطیکہ گزرگاہ کے لئے تنگی کا باعث نہ بنے۔ اس پر امام بخاری رحم اللہ نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے :باب المسجد یکون فی الطریق من غیر ضرَر بالناس تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:فتح الباری ۱۵۶۴و ۱۸۵۔ مسجد کے لیے نیچے دوکانیں اوپر مسجد بنانے کا حکم: سوال: راجن پور شہر میں ایک جدید مارکیٹ تعمیر ہو رہی ہے یہاں پر پہلے سے موجود چھوٹی سی مسجد تقریباً دومرلہ رقبہ پر مشتمل ہے۔ اراضی کے مالک نے وہ مسجد جماعت اہلِ حدیث کی تولیت اور انتظام میں دے دی ہے۔ جماعت نے مزید تقریباً چار مرلے رقبہ مسجد کے لیے خرید لیا ہے اب انتظامیہ مسجد کا خیال ہے کہ پہلے سے موجود مسجد گرا کر تمام رقبے پر مسجد کے لیے دوکانیں بنادیں جائیں اور اُوپر مسجد تعمیر کردی جائے تاکہ مسجد کی مستقل آمدن کا ذریعہ بن سکے۔ ازروئے قرآن و حدیث بتائیں کہ کیا ایسے کرسکتے ہیں ؟ جواب: عمارت کی پہلی منزل میں مسجد کے مصارف کی غرض سے دکانیں بنانا اور مسجد کو بالائی منزل پر منتقل کرنے کا کوئی حرج نہیں۔ کشف القناع میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے تبدیلِ وقف پر اس بات سے استدلال کیا ہے، کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعودt نے جامع مسجد کو کھجوروں کی تجارت گاہ سے بدل دیا۔ یعنی بدل کرکوفہ میں دوسری جگہ لے گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شارعِ عام تنگ ہو گئی، تو انھوں نے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ڈال دیا۔ ملاحظہ ہو! فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ِ ضرورت وقف میں تبدیلی و تصرف کا منتظمین کو اختیار ہے۔ نیچے دکانیں اوپر مسجد اور دکانوں کا مصرف: سوال: ہماری مسجد جو کہ عرصۂ درا ز سے ایک صاحب نے اپنے نام سے جگہ خرید کر بنوائی تھی۔ ابھی تک وہ اس جگہ اس کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور اب مسجد نہایت خستہ ہونے کی وجہ سے منہدم کرکے دوبارہ تعمیر کر رہے ہیں لیکن جماعت کی رائے ہے اور مالکان بھی رضا مند ہیں کہ نیچے دکانیں بنادی جائیں اور ان کے اوپر مسجد تعمیر کی جائے جب کہ یہ دکانیں مسجد کے مصارف میں ہی استعمال ہوں گی کیا یہ قرآن و حدیث کی رُو سے درست ہے یا نہیں؟
Flag Counter