Maktaba Wahhabi

255 - 829
اہلِ مغرب کا عمل: شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق مغربی ائمہ محدثین کا عمل بھی ایک اذان پر تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ((وَ بَلَغَنِی أَنَّ أَھلَ المَغرِبِ الاَدنٰی الاَٰنَ، لَا تَاذِینَ عِندَھُم سِوَیَ مَرَّۃٍ )) [1] ’’مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ اہلِ مغرب کے ہاں جمعہ کے دن صرف ایک ہی اذان کا دستور رائج ہے۔‘‘ اور معلوم ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وفات ۸۵۲ھ میں ہوئی تھی۔ علامہ محقق احمد محمد شاکر المصری رحمہ اللہ کی رائے: ((وَحَرَصُوا عَلَی إِبقَائِ الأَذَانِ قَبلَ خُرُوجِ الاِمَامِ ، وَ قَد زَالَتِ الحَاجَۃُ إِلَیہِ، لِأَنَّ المَدِینَۃَ لَم یَکُن بِھَا اِلَّا المَسجِدَ النَّبَوِیّ… أَمَّا الآنَ قَد کَثُرَت المَسَاجِدُ ، وَبُنِیَت فِیھَا المَنَارَاتُ، وَ صَارَ النَّاسُ یَعرِفُونَ وَقتَ الصَّلٰوۃِ بِأَذَانِ المُؤَذِّنِ عَلَی المَنَارَۃِ، فَإِنَّا نَرٰی اَن یُکتَفٰی بِھٰذَا الأَذَانِ ، وَ أَنَّ یَّکُونَ عِندَ خُرُوجِ الاِمَامِ اِتِّبَاعًا لِلسُّنَّۃِ)) [2] ’’لوگ جمعہ کی مروّجہ پہلی اذان کو بحال رکھنے پر حریص واقع ہوئے ہیں، جب کہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ جس دَور میں یہ اذان شروع کی گئی تھی، اس وقت مدینہ منورہ میں سوائے مسجد نبوی کے دوسری کوئی مسجدِ( جمعہ) نہ تھی۔ مگر اب تو بکثرت مساجد موجود ہیں اور ان میں بلندوبالا منارات تعمیر ہو چکے ہیں اور منارہ پر جب مؤذن اذان پڑھتا ہے، تو لوگوں کو نماز کے وقت کا بآسانی پتہ چل جاتا ہے۔لہٰذا ہماری رائے یہ ہے کہ خالص سنتِ رسول کی اتباع میں ایک ہی اذان پر اکتفا کی جائے اور یہ اذان اس وقت پڑھی جائے، جب امام خطبہ کے لیے تشریف لے آئے۔‘‘ علامہ محمود محمد خطاب السبکی کی رائے: ((ھٰذَا الغَرَضُ الَّذِی أُحدِثَ الأَذَانُ الثَّانِی مِن أَجلِہٖ فِی زَمَنِ عُثمَانَ رضی اللہ عنہ ، لَیسَ مَوجُودًا فِی زَمَانِنَا۔ فَإِنَّنَا لَم نَرَی أَذَانًا یُفعَلُ بَعِیدًا عَنِ المَسجِدِ۔ فَإِذَا یُطلَبُ الاِقتِصَارُ عَلٰی أَذَانٍ وَّاحِدٍ فِی الجُمُعَۃِ فِی زَمَانِنَا ، کَمَا کَانَ فِی زَمَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
Flag Counter