Maktaba Wahhabi

512 - 829
بالتبع تعمیل حدیث ((فَقُولُوا: آمِینَ)) کی بناء پر ہو گی۔ بعد میں صف میں ملنے والے۔ بعد ازاں فاتحہ مکمل کرکے اصل محل پر۔ پھر (آمین) کہے گا۔ بایں توجیہ سورۂ فاتحہ کا ادھورا رہنا لازم نہ آیا، جس طرح کہ وہم پڑھ سکتا تھا۔ یاد رہے امام کے ائتمام(اقتداء) کا حکم ضروری ہے۔ لیکن صرف اس انداز میں ہو گا جس طرح صاحب ِ شریعت سے ثابت ہے ۔ عام حالات میں اقتداء کا اطلاق صرف ظاہری حالت پر ہوتا ہے، باطنی پر نہیں۔ اس بناء پر امام اور مقتدی کی نیت کے اختلاف کی شرع میں گنجائش موجود ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ کے حوالہ سے بعض ائمہ کے جو اقوال نقل کیے ہیں، دیگر ناقلین مذاہب نے بھی بلا شبہ ان اقوال کی نسبت ان کی طرف کی ہے۔ لیکن چونکہ ان کی بنیاد کسی ٹھوس واضح دلیل پر نہیں ہے، اس لیے یہ ناقابلِ التفات ہیں اور ’’دارقطنی‘‘والی روایت کی حقیقت پہلے معلوم ہو چکی۔ یہ قابلِ حجت نہیں ہے۔ البتہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الحاوی للفتاویٰ‘‘ میں نو مختلف طریقوں سے کوشش کی ہے، کہ مأموم کے لیے بھی ’’تسمیع‘‘ کا اثبات کیا جائے۔ لیکن واقعہ یہ ہے، کہ جملہ دلائل میں سے کوئی ایک بھی دلیل ایسی نہیں، جو موضوع ہذا پر نص کی حیثیت رکھتی ہو ۔ بہر صورت ان پر نقد و تبصرہ کی بڑی گنجائش موجود ہے۔( ملاحظہ ہو!(۱؍۵۲،۵۶) بحث: ذکر التشنیع فی مسألۃ التسمیع) امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد مقتدی کا رکوع سے اٹھنا: سوال: اسلامیہ پارک کی ایک مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ امام صاحب نے بتایا کہ جب تک امام ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ ‘کہہ نہ چکے مقتدی رکوع سے نہ اٹھے حالانکہ مشہور یہی ہے کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد رکوع سے اٹھا جائے۔ کیا ان کا قول درست ہے۔؟ جواب: سنن ابوداؤد کی روایت میں واضح مذکور ہے کہ((فَاِنَّ الاِمَامَ یَرکَعُ قَبلَکُم، وَ یَرفَعُ قَبلَکُم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : فَتِلکَ بِتِلکَ)) [1] امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے رکوع سے اٹھتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مقتدی کی کمی بعد میں پوری ہو جاتی ہے۔‘‘ اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد کھڑے ہونے والی بات حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابوداؤد کی روایت میں یہ زیادتی ہے۔
Flag Counter