Maktaba Wahhabi

598 - 829
فرض نماز کے بعد اور دیگر مواقع پر اجتماعی دعا نماز کے بعد اجتماعی دعا کی حیثیت: سوال: کیانماز سے فارغ ہوکر آدمی دعامانگ سکتا ہے ؟ درج ذیل حدیث کی وضاحت فرمادیں: (( اَنَّ عَبدَ اللّٰہِ بنَ الزُّبَیرِ رَاَی رَجُلًا رَافِعًا یَدَیہِ قَبلَ اَن یَّفرُغَ مِن صَلٰوتِہٖ فَلَمَّا فَرَغَ مِنھَا قَالَ: اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَم یَکُن یَرفَعُ یَدَیہِ حَتّٰی یَفرَغَ مِن صَلٰوتِہٖ )) [1] حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کودیکھاکہ نماز ختم ہونے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر دعامانگ رہا ہے تو نماز کے بعدآپ نے اس سے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ہی ہاتھ اٹھاتے تھے‘‘ (اس کے سب راوی ثقہ ہیں) نیز فتاوی اہلحدیث جلد نمبر ا ص ۱۹۰ فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۵۴۴ میں بھی ہے کہ یہ دعا شرعا درست اور مستحب ہے۔ تو اگرآپ کہیں کہ نماز کے بعد دعا کرنے کے ثبوت میں جو حدیثیں آتی ہیں وہ ضعیف ہیں تو عرض ہے حدیث ((انَّمَا الاَعمَالُ بِالنِّیَّاتِ)) بھی ضعیف ہے اور نماز عید کی پہلی رکعت میں سات تکبیروں اور دوسری میں پانچ تکبیروں والی روایت بھی ضعیف ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب ایک حدیث چاہے وہ ضعیف ہو اگر اس کے خلاف کوئی حسن صحیح روایت نہ ہو تو وہ حدیث ضعیف بھی احادیث کے قوانین کے مطابق حسن اور صحیح حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ بتلایئے کہ دعانہ کرنے کے متعلق کون سی صحیح احادیث ہیں؟ جواب: روایت ہذا کی سند کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں ہو سکی، کہ وہ صحیح ہے یا غیر صحیح۔ کسی حدیث کے راوی ثقہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا، کہ حدیث صحیح ہے۔ امکان ہے کہ ا س کی سند میں انقطاع ہو ، یا اس میں کوئی اور مدلس راوی ہو، جس نے تحدیث یا سماع کی صراحت نہ کی ہو۔لہٰذا وہ لوگ جو محض رواۃ کے ثقہ ہونے پر حدیث کو صحیح سمجھ بیٹھے ہیں، وہ غلطی میں مبتلا ہیں۔ حافظ ھیثمی کی عادت ہے، کہ وہ ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کرتے ہیں۔ طبرانی کے شیوخ کے بارے میں ہیثمی کا نرالا اصول ہے۔ وہ مجمع الزوائد کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں: ’’طبرانی کے وہ شیوخ جن کا ذکر ’’میزان الاعتدال للذہبی‘‘ میں ہے، ان کے ضعف کے بارے میں، میں نے آگاہ کر دیاہے، اور جو اس میں (میزان میں) نہیں ان کو میں نے ثقات
Flag Counter