Maktaba Wahhabi

793 - 829
آتے ہیں اس لیے نماز عصر وہ پوری ادا کریں گے اور اگر کسی وقت راستے میں عصر کا وقت بھی آجائے تو ظہر کی طرح اسے بھی دوگانہ پڑھا جا سکتا ہے۔ بوقتِ ضرورت ظہر و عصر میں جمع تقدیم و تاخیر کا بھی جواز ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ایک جگہ مستقل اقامت کے بغیر جب تک آدمی سفر میں ہے وہ قصر کر سکتا ہے۔ اگرچہ کئی سال گزر جائیں۔[1] اور اگر کسی جگہ بہ نیت و ارادۂ مستقل چند یوم ٹھہرنے کا پروگرام ہوتو کتنے روز قصر ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں اہلِ علم کے بہت سارے اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک قول پندرہ روز کا بھی ہے، لیکن سنداً یہ حدیث کمزور ہے۔[2] صحیح بات یہ ہے کہ بایں صورت قریبًا چار روز تک قصر ہو سکتی ہے، کیونکہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کو مکہ میں داخل ہوئے تھے اور آٹھ تاریخ کو نکل گئے تھے۔ پھر جب تک آدمی حالت ِ سفر میں ہووہ قصر کر سکتا ہے۔ میلوں سے اس کی کوئی حد بندی نہیں۔ البتہ بعض اہلِ علم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کی بناء پر ابتدائِ قصر کے لیے احتیاطاًنوکوس بیان کیے ہیں۔۲۵ کلو میٹر کا ذکر میرے جواب میں نہیں تھا۔ بلکہ یہ سائل کے سوال میں تھا۔ میں نے صرف اتنی مسافت پر قصر کا جواز بیان کیا ہے۔ حصر (تحدیر) مقصود نہیں تھا۔ مسافر کتنے دن تک قصر کر سکتا ہے؟ سوال: مسافر کتنے دن تک قصر کر سکتا ہے؟اور قصر ، سفر کا ارادہ کرتے ہی یعنی گھر سے نکلنے کے بعد ہی شروع ہو جاتی ہے یا اس کی کوئی حد ہے کہ اتنے میل سے شروع ہو گی؟ کتنے دن تک سفر میں قصر کر سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتا دیں نوازش ہو گی۔ جواب: مسافر جب کسی جگہ چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا عزم رکھتا ہو تو نماز پوری پڑھے۔ جمہور اہلِ علم کا یہی مسلک ہے ، کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر ۴؍ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور آٹھ کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے اور ان ایام میں آپ دوگانہ پڑھتے رہے۔ یہ قیام نیت اور عزم و جزم کے ساتھ طے شدہ تھا۔ اس سے کم قیام کی صورت میں قصر کرنا افضل ہے ، اگر پوری نماز پڑھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر کسی نے لمبے سفر پر جانا ہوتو اپنی رہائشی حدود سے نکل کر دوگانہ شروع ہو جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی بناء پر۔ اگر کسی نے نو کوس کی مسافت تک جانا ہو تو وہ قصر کر سکتا ہے۔ اس حدیث میں
Flag Counter