Maktaba Wahhabi

664 - 829
قضائی دی ہو اور نہ وِتر کی قضائی کا حکم ہی دیا ہے اور جو یہ سمجھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رفقاء سمیت جس رات وادی میں سوئے رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وِتر کی قضائی دی ہے، وہ غلطی پر ہے۔‘‘ پھر وِتر کی قضائی کو ضروری قرار دینا عقل و نقل کے بھی منافی ہے۔ کیونکہ راجح مسلک کے مطابق وِتر واجب نہیں۔ صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وجوب کے قائل ہیں۔ لیکن ان کے شاگردوں نے ان کی موافقت نہیں کی۔غور فرمائیے ! جو شئی بذاتِ خود واجب نہیں، اس کی قضائی کیسے واجب ہو سکتی ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ جواز کا قول ممکن ہے۔ جس طرح کہ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ نے احتیاطی پہلو اختیار کیا ہے۔ مسئلہ قضاء وِتر پر مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو! فتاویٰ اہلحدیث :۲؍۳۰۸ تا۳۱۷۔ لشیخنا محدث روپڑی۔ رحمہ اﷲ تعالی رحمۃ واسعۃ دوتین دن بعد حالتِ جنابت کا علم ہو تو ادا شدہ نمازوں کا حکم: سوال: اگر دو تین نمازوں کے بعد آدمی کو پتہ چلے کہ وہ حالتِ جنابت میں تھا تو کیاادا شدہ نمازوں کا اعادہ کرنا ہو گا؟ جواب: حالتِ جنابت میں پڑھی ہوئی نمازوں کا اعادہ ضروری ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے: ((لَا تُقبَلُ صَلَاۃٌ بِغَیرِ طُھُورٍ)) [1]یعنی ’’بلا طہارت نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں انہی لفظوں کے ساتھ تبویب بھی قائم کی ہے۔ یہ طہارت وضواور غسل سب کو شامل ہے۔ فرضی غسل نہ کرنا اور نماز پڑھ لینا: سوال: کسی پر غسل واجب ہو اور اس نے غسل نہ کیا ہو یا غسل نہ کر سکے تو کیا ایسے اس کی نمازہو جائے گی۔ نیز غسل واجب ہونے کی صورت میں قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے؟ جواب: بلاغسل نماز نہیں ہو گی۔ ہاں البتہ جنگل میں اگر پانی میسر نہ آئے تو تیمم کرکے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ بلا غسل قرآن کی تلاوت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
Flag Counter