Maktaba Wahhabi

273 - 829
کا کسی صحابی نے انکار نہ کیا۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ((عَلَیکُم بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الخُلَفَائَ الرَّاشِدِینَ المَھدِیِّینَ)) [1]کے تحت اذان عندالخطبہ دینے سے سُنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اذان وقتی سے سُنتِ خلفاء ،دونوں سُنتوں پر عمل ہو جائے گا۔ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ سنّت،سنّت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف نہیں لہٰذا یہ حضرات کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک جمعہ کی دو اذانیں مسنون ہیں ۔ براہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل ارسال کر کے ممنون فرمائیں کہ کیا جمعہ کی دو اذانیں دینا جائز اور مسنو ن ہیں یا نہیں ؟ جواب: اصلاً جمعہ کی صرف ایک اذان ہے، جو خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جاتی ہے ۔اذانِ عثما نی کا محض جواز ہے ۔کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ مطاع تھے ۔ صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ کی کثیر تعداد نے ان کے اس فعل پرموافقت کی ہے ۔ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے عہدِنبوی کی بطورِ مثال بلالی اذان موجود تھی، جو نماز فجر کی تیاری کے لئے قبل ازوقت دی جاتی تھی۔ اسی طرح اذانِ عثمانی کا اضافہ بھی قبل ازوقتِ جمعہ کی تیاری کے لئے ہوا۔ لہٰذا اگر کوئی ایک اذان دے یا کوئی دو کا قائل ہو تو کسی پر نکیر نہیں ہونی چاہیے۔ اگرچہ اولیٰ ایک ہے۔ موضوع ہذا پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ بعنوان ’’عثمانی اذان کی شرعی حیثیت‘‘ چند سال قبل فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ (جلد:۱)اور جملہ جماعتی جرائد و مجلات میں شائع ہو چکا ہے۔ اس میں جانبین کے دلائل کا محاکمہ علمی انداز میں کیا گیا تھا۔ جو کافی مفید ہے۔ کیا اقامت ِجمعہ کے لئے مسجد کاوجود شرط ہے؟ : سوال: ایسی جگہ جو مدرسہ کے لئے وقف ہو، کیا اس کی عمارت میں بچوں کی تعلیم کے علاوہ نمازِ پنجگانہ خصوصاً نماز جمعہ و عیدین کا ادا کرنا جائز ہے؟جبکہ اس میں مسجد کی خاص علامات مثلاً مینار، منبر اور محراب وغیرہ بھی نہیں ہیں۔ (محمد فیاض کھوکھر، سیالکوٹ) جواب:اقامت ِجمعہ کے لئے مسجد کاوجود شرط نہیں۔ چنانچہ فقیہ ابن قدامہ فرماتے ہیں: ((ولا یشترط لصحۃ الجمعۃ إقامتہا فی البنیان ویجوز إقامتہا فیما قاربہ من الصحراء وبہا قال ابوحنیفۃ)) یعنی ’’اقامت ِجمعہ کے لئے عمارت کا ہونا شرط نہیں۔ اس کے قریب میدان میں بھی جائز ہے۔
Flag Counter