Maktaba Wahhabi

247 - 829
اذان ہوا کرتی تھی، اور وہ اس وقت ہوتی تھی، جب امام خطبہ کے لیے منبر پر رونق افروز ہو جاتا تھا۔ یہی اذان شرعی اذان ہے۔ ثانیاً:اس لیے بھی زید ہی کا قول صحیح ہے، کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی اس اذان کو شرعی اذان تصور فرماتے، تو مسجد نبوی سے تقریباً اڑھائی سو میٹر دُور فاصلہ پر یہ اذان نہ کہلواتے بلکہ مسجد نبوی کے اسی مقام پر اس کا اہتمام فرماتے جہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں ہوا کرتی تھی۔ رہی یہ بات کہ مقام ’’زوراء‘‘ کہاں اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنے فاصلہ پر واقع ہے تو سنیے! مقام ’’زوراء‘‘ کی تحقیق: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ صحیح بخاری کی شرح میں اس حدیث کی تفسیر میں ’’الزوراء‘‘ کی تحقیق کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ ((اَلزَّورَآء) بِفَتحِ الزَّای، وَ سَکُونِ الوَاوِ،وَبَعدَھَا رَآئٌ مَمدُودَۃٌ : وَ ھِی سُوقٌ بِالمَدِینَۃِ۔ )) علامہ ابن بطال کو اصرار ہے کہ ’’زوراء‘‘ ایک بڑے پتھر کا نام ہے، جو کہ مسجد نبوی کے دروازے کے قریب واقع تھا مگر ان کا یہ موقف درست نہیں۔ جیسا کہ امام بخاری،ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور طبرانی رحمہما اللہ وغیرہ کی تصریحات سے واضح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’زوراء‘‘ مدینہ کے بازار میں ایک مقام کا نام ہے۔ ((قَالَ اَبُو عَبدِ اللّٰہِ (الاِمَامُ البُخارِی) الزّوراء، موضع بالسُّوقِ بِالمَدِینَۃِ)) [1] اور یہی بات صحیح ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حضرت امام بخاری کی تائیدفرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ((وَ مَا فُسِّرَ بِہِ الزوراء، ھو المعتمد ۔ وَ جَزَمَ ابنُ بَطَّالٍ بِأَنَّہٗ حَجَرٌ کَبِیرٌ عِندَ بابِ المَسجِدِ۔ وَ فِیہِ نَظَرٌلما فی روایۃ ابن إسحاق، عن الزھری، عند ابن خزیمۃ، وابن ماجہ بلفظ زاد الندِائَ الثالث علی دارٍ فِی السُّوقِ یُقَالُ لَھَا: ((الزَّورَاء‘۔ و فی روایۃ عند ((الطبرانی‘ فَأَمَرَ بالنِّدَائِ الاوّلِ عَلیٰ دَارٍ لَہٗ۔ یُقَالُ لَھَا: ((الزَّورَائُ، فَکَانَ یُؤَذَّنُ لَہٗ عَلَیھَا)) [2] اس تصریح سے معلوم ہوا کہ ’’زَورَاء‘‘ کسی بڑے پتھر کا نام نہیں، بلکہ مدینہ منورہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری ، صحیح ابن خزیمہ، سنن ابن ماجہ اور طبرانی کی روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔
Flag Counter