Maktaba Wahhabi

835 - 829
حدیث ہذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دیگر طُرق سے بھی مروی ہے۔ اس حدیث کے راویوں میں سے عبد اﷲ بن عمرو، ابن عمر، جابر ،ابو واقد اور عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔ ان کے طُرق جید ہیں۔ جملہ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ’’ارواء الغلیل‘‘ (۳؍۱۰۷تا۱۱۲) اور جہاں تک تعلق ہے راوی ’’کثیر بن عبد اﷲ‘‘ کا، یہ واقعی ضعیف ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہلِ علم کی ایک جماعت نے ترمذی کی تحسین کا انکار کیا ہے، کیونکہ کثیر بن عبد اﷲ سخت ضعیف ہے، حتی کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: (( ھُوَ رُکنٌ مِّن أَرکَانِ الکَذِب)) [1] لیکن اس حدیث کو جو قابلِ حجت اور صحیح قرار دیا گیا ہے، وہ دیگر طُرق و روایات کے اعتبار سے ہے۔ لہٰذا اصل مسئلہ بلا تردّد (یعنی بغیر شک کے) ثابت ہے۔ نیز ’’کثیر بن عبداﷲ‘‘ اور امام ترمذی رحمہ اللہ کی تصحیح اور تحسین پر طویل ترین ناقدانہ بحث کے لیے ملاحظہ ہو! توضیح الأفکار لمعانی تنقیح الانظار للصنعانی (۱؍۱۶۹۔۱۸۰) عید کے دو خطبے یا ایک …؟ سوال: عید کے دو خطبے دینے جائز ہیں یا نہیں؟ جواب: عمومی صحیح احادیث کے ظواہر کی بناء پر اصلاً خطبہ عید صرف ایک ہے۔ اضافہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ بعض علماء بعض ضعیف آثار کے پیشِ نظر اور جمعہ پر قیاس کرتے ہوئے، دو خطبوں کے قائل ہیں اور صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: ((ثُمَّ خَطَبَ۔ فِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی مَشرُوعِیَّۃِ خُطبَۃِ العِیدِ۔ وَ لَیسَ فِیہِ خُطبَتَانِ، کَالجُمُعَۃِ، وَ أَنَّہٗ یَقعُدُ بَینَھُمَا۔ وَ لَم یَثبُت ذٰلِکَ مِن فِعلِہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِسَنَدٍ مُعتَبَرٍ))(۲؍۳۳۰) نمازِ عید مسجد میں پڑھنا: سوال: کیا بغیر کسی عذر اور وجہ کے نمازِ عید مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے؟ جواب: بلا عذر اور بلا وجہ مسجد میں نماز عید ادا کرنا درست نہیں۔ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرکے بلا سبب نمازِ عید مسجد میں پڑھتا ہے۔ نماز تو ہو جائے گی، لیکن فضیلت سے محروم ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!
Flag Counter