Maktaba Wahhabi

172 - 829
قبل از وضوء یا غسل کے لیے کپڑے اتارنے کے بعد بسم اللہ پڑھنا لازمی ہے؟ سوال: کیاوضوکرنے سے پہلے ’’بِسمِ اللّٰہِ ‘‘ پڑھنا لازم ہے۔ غسلِ جنابت یا عام غسل کے لیے کپڑے اتار دینے کے بعد بسم اﷲ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ جواب: کوشش کرنی چاہیے کہ کپڑے اتارنے سے پہلے وضوکر لیا جائے۔ کپڑے اتار کر بھی بسم اﷲ کا جواز ہے بشرطیکہ جگہ نجس نہ ہو۔ حدیث میں ہے: ((یَذکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحیَانِہٖ)) [1] بصورت ِ دیگر دل میں پڑھ لی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ باب قائم کیا ہے۔ (( بَابُ التَسمِیَۃِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ وَ عِندَ الوَقَاعِ )) ’’یعنی تسمیہ ہر حالت میں پڑھنی چاہیے اور جماع کے وقت بھی۔‘‘ پھر دعائے جماع((بِسمِ اللّٰہِ، اللَّہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا…))[2] سے اولویت کی بناء پر ان کا استدلال ہے۔’’فتح الباری‘‘میں ہے : (( لٰکِن یُستَفَادُ مِن بَابِ الاَولٰی، لِاَنَّہٗ اِذَا شَرَعَ فِی حَالَۃِ الجِمَاعِ وَ ھِیَ مِمَّا اَمَرَ بِہٖ بِالصَمتِ فَغَیرُہُ أَولٰی )) (۱؍۲۴۲) تاہم فتاویٰ اسلامیہ (۱؍۲۱۹) میں شیخ ابن عثیمین نے ترجیح اس بات کو دی ہے کہ ایسی حالت میں ’’بِسمِ اللّٰہِ‘‘ صرف دل ہی دل میں پڑھنی چاہیے۔ وجہِ استدلال یہ ہے کہ تسمیہ راجح قول کے مطابق واجبات سے نہیں بلکہ مستحبات سے ہے، لیکن شاہ ولی اﷲ صاحب نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں تسمیہ کو رکن یا شرط قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! (مرعاۃ المفاتیح :۱؍۲۷۵۔۲۷۶) غسل جنابت کے لیے پانی میسر نہ ہو تو تیمم کریں گے؟ سوال: جنابت یا احتلام کے باعث غسل فرض ہوگیا۔ لیکن گھر پر پانی نہیں ۔فجر کا وقت ہوچکا ہے، آیا مسجد جا کر وضو کر کے نماز باجماعت ادا کرے یا اکیلا گھر پر تیمم کر کے نماز ادا کرلے؟ جواب: ایسی حالت میں پہلے پانی تلاش کرنا چاہیے۔ اگر پانی نہ مل سکے اور نماز کے وقت کے فوت ہونے کا
Flag Counter