Maktaba Wahhabi

186 - 829
جواب: صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ مسجد میں توسیع کی گنجائش موجود ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسی جگہ توسیع کرلی جائے، البتہ کسی معقول عارضہ کی بنا پر اس کو تبدیل کرنا بھی جائز ہے۔ چنانچہ کشف القناع عن متن الاقناع میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے تبدیلی وقف پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں جامع مسجد کا کھجور کے تاجروں سے (کسی دوسری جگہ کے عوض) تبادلہ کرلیایعنی وہ اسے بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے۔ اسی طرح فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شارعِ عام تنگ ہونے کی وجہ سے مسجد کاکچھ حصہ اس میں ملا دیا تھا۔(۳؍۲۸۸) حضرات صحابہ کرام ؓکے یہ تصرفات اس بات کی دلیل ہیں کہ مسجد کو کسی مجبوری کی بنا پر بدلنا جائز ہے ۔ مسجدکے نام وقف شدہ زمین کاکیاحکم : سوال: مسجد کے نام وقف شدہ کا کیا حکم ہے جب کہ وقف شدہ جگہ پرمسجد کی تعمیر کی ضرورت نہ رہے؟ کیا وقف شدہ زمین کسی اور نیک کام میں استعمال ہو سکتی ہے ؟ یا فروخت کرکے کسی اور جگہ مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے؟ جواب: وقف شدہ چیز کو وقف ہی رہنا چاہیے اگر وقف کا مصرف نہ رہے تو دوسرے وقف میں اس کی قیمت کو استعمال کیا جا سکتا ہے یا پھر کسی بھی کارِ خیر میں اس کی قیمت خرچ ہو سکتی ہے۔ اذان و جماعت کا اہتمام کرنے سے جگہ کا حکم: سوال: میں کرائے کی جگہ پر لکڑی فروخت کرنے کا کام کرتا ہوں اور وہاں ظہر اور عصر کی نماز ہم جماعت سے ادا کرتے ہیں اور اذان کہہ کر جماعت کراتے ہیں۔ایک دن کسی آدمی نے ہم سے کہا کہ جس طرح آپ اذان کہہ کر جماعت کراتے ہیں اس طرح یہ جگہ مسجد کے لیے مخصوص ہو جائے گی۔ براہ مہربانی ہمیں آگاہ کیا جائے کہ جہاں ہم جماعت کراتے ہیں وہ تو کرایے کی جگہ ہے کیا وہ جگہ مسجد کے لیے مخصوص کرانا پڑے گی یا اسی طرح درست ہے؟ ہم وہاں صرف ظہر اور عصر کی نماز ادا کرتے ہیں باقی نمازیں گھر آکر مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ جواب: کسی جگہ محض اذان جماعت کا اہتمام کرنے سے وہ جگہ وقف نہیں ہوتی اور نہ وہ مسجد کے حکم میں ہوتی ہے۔ صحیح بخاری میں قصہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہما میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر نوافل کی
Flag Counter