Maktaba Wahhabi

414 - 829
کیے جاتے ہیں۔اس میں جابر رضی اللہ عنہ کا قول بھی شامل ہے۔ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’التمہید‘‘ اور ’’الاستذکار‘‘ میں صراحت کی ہے، کہ جس کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ’’ترکِ قرأتِ خلفِ امام‘‘ ثابت ہے۔ اس سے اس کا خلاف بھی منقول ہے، ما سوائے جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کے۔ لیکن علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ ان سے بھی قرأت خلف الامام ثابت ہے۔ وہ بحوالہ ’’ابن ماجہ‘‘ فرماتے ہیں: (( عَن یَزِیدَ الفَقِیہِ ، عَن جَابِرِ بنِ عَبدِ اللّٰہِ، قَالَ: کُنَّا نَقرَأُ فِی الظُّھرِ ، وَالعَصرِ خَلفَ الاِمَامِ فِی الرَّکعَتَینِ الأُولَیَینِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ، وَ سُورَۃٍ ، وَ فِی الاُخرَیَینِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ)) [1] ﴿ اِذَا قَرَأَ فَاَنصِتُوا﴾ کی تحقیق: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں لفظ ﴿وَ اِذَا قَرَأَ فَاَنصِتُوا﴾(النحل:۹۸) کی تصحیح اور تضعیف میں ائمہ فن اورنُقَاد اور حُفَّاظِ حدیث کا اختلاف ہے: امام احمد، امام مسلم، اور حافظ منذری رحمہما اللہ نے اس لفظ کو صحیح قرار دیا ہے، جب کہ اکثر حفاظ ، امام بخاری، ابوداؤد، ابوحاتم ، یحییٰ بن معین، حاکم، دارقطنی، ابن خزیمہ، محمد بن یحییٰ الذھلی، حافظ ابو علی نیشاپوری، حافظ علی بن عمر اور بیہقی رحمہما اللہ نے اس لفظ کو ضعیف گردانا ہے۔ محدثین کے ہاں یہ مُسَلَّمَہ اصول ہے، کہ تعارض کی صورت میں کثرت کو قلت پر غالب قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا اکثریت کا قول قابلِ اعتبار ٹھہرا کہ یہ ٹکڑا ضعیف ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں: ۱۔ یہ لفظ غیر محفوظ اور سلیمان تیمی کا وہم ہے۔ ۲۔ سلیمان تیمی نے قتادہ سے سماع کی صراحت نہیں کی۔ جب کہ قتادہ مدلس ہے۔ اس طرح قتادہ نے بھی یونس بن جبیر سے سماع کی صراحت نہیں کی۔ سلیمان تیمی اور قتادہ کا مدلس ہونا ’’کتب أسماء الرجال‘‘میں معروف ہے اور اگر تفصیل مطلوب ہو، تو اس بات میں ’’تحقیق الکلام‘‘ کا مراجعہ بے حد مفید ہے۔ ملاحظہ ہو! (حصہ دوم، ص:۸۳، تا ۱۰۱)اور بفرضِ محال اگر اس کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے، تو اس کا اطلاق ’’سورۃ فاتحہ‘‘ کے علاوہ پر ہو گا۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ پر جرح کا جواب: محمد بن اسحاق پر جرح ،تدلیس اور تَفَرُّد کا جواب بالاختصار ملاحظہ ہو!
Flag Counter