Maktaba Wahhabi

736 - 829
اور ’’جامع ترمذی‘‘ میں ہے: (( وَ یُوتِرُ بِرَکعَۃٍ )) [1] یعنی ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وِتر پڑھتے تھے۔‘‘ اس پر عمل اکیلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہی نہیں، بلکہ صحابہ اور تابعین سے بکثرت ایک وِتر پڑھنا ثابت ہے۔ حافظ زین الدین عراقی لکھتے ہیں: ’’ خلفاء اربعہ ، سعد بن ابی وقاص، معاذ بن جبل ، ابیّ بن کعب، ابو موسیٰ اشعری، ابو الدرداء، حذیفہ، ابن عمر، معاویہ، تمیم داری، ابو ایوب انصاری، ابوہریرہ، فضالہ بن عبید، عبد اﷲبن زبیر، معاذ بن حرث القاری،( رضی اللہ عنہم ) سب ایک رکعت وِتر پڑھا کرتے تھے اور تابعین میں سے سالم بن عبد اﷲ بن عمر اور عبد اﷲ بن عباس بن ابی ربیعہ، حسن بصری، محمد بن سیرین، عطا ء بن ابی رباح، عقبہ بن عبد الغافر، سعید بن جبیر، جابر بن زید، زہری، ربیعہ بن عبد الرحمن ( رحمہما اللہ ) وغیرہ، ایک ایک رکعت وِتر کے قائل ہیں اور ائمہ میں سے امام شافعی، اوزاعی، احمد، اسحاق، ابو ثور، داؤد، ابن حزم( رحمہما اللہ ) سب ایک رکعت وِتر کے قائل ہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس طرح نقل کیا ہے۔ [2] وِتروں کی تعداد ایک سے نو تک ہے تو کیا ایک وتر صرف مجبوری کے تحت پڑھ سکتے ہیں؟ سوال: عشاء کے وِتر ’’الاعتصام‘‘ میں ایک سے نو تک بتائے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک وِتر صرف مجبوری کے تحت پڑھ سکتے ہیں؟ یا کہ ویسے ہی سنت سمجھ کر بھی ایک یا تین پڑھنے سے ثواب میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے؟ جواب: عام حالات میں بھی ایک وِتر پڑھنے کا جواز ہے۔ ظاہر ہے زیادہ عمل کرنے سے زیادہ ثواب ملے گا، اور کم کی صورت میں کم۔ بشرطیکہ وہ دائرۂ سنت کے اندر ہو۔ تین وِتر اکٹھے پڑھنے کی صورت : سوال: دعاے قنوت کا ’’الاعتصام‘‘ رسالہ (شمارہ نمبر:۱۱، ۱۹۹۵ء سوال نمبر:۲،ص:۲۸۸) میں کئی دفعہ ذکر آیا ہے کہ رکوع سے قبل اور ہاتھ باندھ کر کرنی چاہئے لیکن اس بارے میں تسلی کریں کہ دو رکعت کے بعد التحیات بیٹھنا ہوتا ہے ؟ کیا التحیات پڑھنا درست ہے یا نہیں۔ جیسے حنفی بھائی کرتے ہیں یا نہیں پڑھنا چاہیے؟
Flag Counter