Maktaba Wahhabi

178 - 829
حدیث ہذا کے تحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:‘‘اس حدیث میں کنگھی کے ساتھ درج ذیل امور کا بھی جواز ہے۔ صفائی اختیار کرنا، خوشبو لگانا، غسل کرنا، بال منڈانا، زینت اختیار کرنا۔‘‘ ایک تیسری تبویب مصنف نے بایں الفاظ قائم کی ہے:’’وَکَانَ لَا یَدْخُلُ البَیْتَ اِلَّا لِحَاجَۃٍ‘‘ جب کہ صحیح مسلم میں ’’حاجۃ الانسان‘‘ کے الفاظ ہیں۔ امام زہری رحمہ اللہ نے’’حاجۃ‘‘ کی تفسیر پیشاب، پاخانہ کے ساتھ کی ہے۔ البتہ دیگر علماء نے بعض اور مستثنیات کا بھی ذکر کیا ہے، اگرچہ وہ مختلف فیہ ہیں۔ المجموع میں ہے: ’’جائز ہے کہ معتکف اپنا سر اور پاوں مسجد سے باہر نکالے یا طبعی حاجات کے لیے مسجد سے نکلے۔ تو اس حدیث کی بناء پر اعتکاف باطل نہیں ہو گا۔ اور اگر بلاعذر کے مسجد سے نکل گیا تو اعتکاف باطل ہے۔ اس لیے کہ اس نے وہ فعل کیا ہے جو اعتکاف کے منافی ہے، وہ ہے مسجد میں ٹھہرے رہنا‘‘ لیکن جہاں تک محض ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کا تعلق ہے تو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آج تک کسی نے غیر واجب غسل کو مسجد سے نکل کر کرنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہو یا وہ اس کا قائل ہو، لہذا جواز کی بات ناممکن نظر آتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کر گزرے تو اس سلسلہ میں مغنی المحتاج میں تفصیل موجود ہے۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ: اگر یہ اعتکاف نفلی ہے تو اعتکاف کا پہلا جزء باطل نہیں ہو گا۔ اور اگر یہ واجب ہے جس میں تتابع شرط ہے تو یہ باطل ہے، نئے سرے سے پھر اعتکاف کرنا پڑے گا۔ اور اگر وجوب کے باوجود تتابع شرط نہیں تو پہلا اعتکاف باقی ہے۔واضح رہے کہ مسجد کے اندر رہ کر غسل ٹھنڈک میں کوئی حرج نہیں۔ جس عورت پر غسل واجب ہو اس کا بچے کو دودھ پلانا: سوال: ناپاک عورت جس پر غسل واجب ہے اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے یا نہیں؟ اور ناپاک آدمی جس پر غسل واجب ہو وہ بغیر ضرورت کھانا کھا سکتا ہے یا نہیں؟ جواب: بہتر یہ ہے کہ ماں بعد از غسلِ جنابت بچے کو دودھ پلائے۔ یہ بات معروف ہے کہ اسلام میں طہارت اور نظافت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ﴿ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَھِّرِینَ﴾ (البقرۃ:۲۲۲) اور بامر مجبوری اگر بلا طہارت بھی پلا دیا جائے تو جواز ہے۔ کیونکہ اصل مسلمان میں طہارت ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:((إِنَّ المُؤمِنُ لَا یَنجُسُ)) [1]
Flag Counter