Maktaba Wahhabi

672 - 829
اگر عورت کے پاؤں ننگے ہوں تو نماز دوبارہ پڑھے۔ مزید عرض ہے کہ اس مسئلہ میں استحباب و وجوب کی بحث سے قطع نظر دیکھا یہ جائے، کہ صحابیات سوال: کا معمول کیا تھا اور وہ اس پاکیزہ معاشرے میں پاؤں ننگے رکھ کر چلتی اور نماز پڑھتی تھیں، یا ڈھانپ کر؟ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے بیان اور حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے استفسار سے تو اسی کی تائید ہوتی ہے، کہ ان کے پاؤں بہرحال ننگے نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا مسلمان عورتوں کو امہات المسلمین سوال: کی پیروی کرنی چاہیے اور مادر پدر آزاد معاشرے کی نقالی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس لیے صحیح یہی ہے، کہ عورت کے پاؤں بھی ’’سَتر‘‘ ہیں اور ان کا ڈھانپنا بھی واجب اور ضروری ہے۔ ابوداؤد کی مرفوع روایت گو ضعیف ہے، مگر اجماع اس کا مؤید ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے کہا ہے، بلکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے بھی وجوب ہی مترشح (واضح) ہوتا ہے۔ مولانا اثری حفظہ اللہ کے تعاقب پر ایک نظر کیا دورانِ نماز عورت کے لیے پاؤں ڈھانپنے ضروری ہیں؟ ۱۸؍مارچ ۲۰۰۵ء کے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں ’’راقم الحروف‘‘ کا یہ فتویٰ شائع ہوا، کہ دورانِ نماز عورت کے لیے پاؤں کی پشت ڈھانپنے کے بارے میں ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں جو روایت ہے، وہ سنداً مرفوع اور موقوف دونوں طرح ضعیف ہے۔ ہمارے فاضل محقق دوست مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے اس پر تعاقب فرمایا ہے۔ حدیث ہذا کا ضعف تو خیر انھوں نے بھی تسلیم کیا ہے، لیکن نفس مسئلے سے اتفاق نہیں کیا۔ سطورِ ذیل میں اس پر ایک جائزہ پیش کرنا مقصود ہے ، موصوف فرماتے ہیں: ’’حالانکہ اس کی بابت راجح اور صحیح موقف یہی ہے، کہ عورت کی پُشتِ پاؤں بھی ستر ہے۔‘‘(الاعتصام: ۱۳؍۵۷،ص:۱۵) حقیقت یہ ہے، کہ انھوں نے اپنے دعوے پر جس قدر دلائل پیش کیے ہیں، تقریباً ان سب کا تعلق عورت کے گھر سے باہر قدم رکھنے کے ساتھ ہے، کہ اس وقت پَردے کی یہ کیفیت ہونی چاہیے، جس سے کوئی اختلاف نہیں، جب کہ متنازع فیہ مسئلہ ’’ عورت کا نماز میں ستر‘‘ ہے ، جو اپنی چار دیوار ی کے اندر نمازادا کرنا چاہتی ہے ، کیا وہ اپنے قدموں کی پشت کو ڈھانپے؟
Flag Counter