Maktaba Wahhabi

539 - 829
یہاں تک کہ کمر سیدھی ہو گئی۔ مقتدیوں میں سے تین اشخاص نے سبحان اﷲ کہا تو امام صاحب بیٹھ گئے اور دوسجدے کیے۔ کچھ نمازیوں نے اعتراض کیا کہ جب امام نے کمر سیدھی کرلی تو پھر رکعت پڑھنے کے بعد ہی بیٹھے گا جب کہ کچھ نمازیوں نے کہا کہ نماز کے مکمل ہونے کے یقین کے بعد اگلی رکعت پڑھنا منع ہے۔ وضاحت فرمائیں۔ کیا امام نے ایسا کرکے درست کیا ہے؟ جواب: چار رکعت کے بعد کھڑا ہونے والا امام یاد آنے پر بیٹھ جائے، کیونکہ فرضی نماز میں چار رکعات سے زائد کا تصور نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال ہوا، کہ ایک امام پانچویں رکعت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، مقتدیوں نے ’’سبحان اﷲ‘‘ کہا، لیکن اس نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ تو کیا مقتدی اس کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں یا نہ؟ امام صاحب نے جواباً فرمایا: مقتدی اگر جہالت کی وجہ سے اس کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں، تو ان کی نماز باطل نہیں ہوگی۔ لیکن باخبر ہونے کی صورت میں ان کے لائق نہیں، کہ ایسے امام کی پیروی کریں، بلکہ وہ منتظر رہیں۔ یہاں تک کہ وہ امام کے ہمراہ سلام پھیریں یا اس سے پہلے سلام پھیر کر فارغ ہو جائیں۔ البتہ انتظار کرنا زیادہ بہتر ہے۔[1] لہٰذا مسؤلہ کیفیت میں امام کا فعل درست ہے۔ نماز میں کلام کی حرمت کا حکم مدینہ میں آیا: سوال: حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کم پڑھائی۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بتانے پر مکمل کی اور سجدۂ سہو کیا۔ شروع میں نماز میں بات چیت کرلیتے ۔ سلام کا جوب بھی دیا جاتا لیکن آیت ﴿حَافِظُوا عَلَی الصَّلٰوات﴾ الخ اُترنے پر بات چیت بند ہو گئی کس طرح پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز صحابہ کے بتانے پر اس آیت مبارکہ کے نازل ہونے سے پہلے مکمل کرکے سجدۂ سہو کیا تھا یا بعد میں کیونکہ احناف کا کہنا یہ ہے کہ اب بات چیت کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے جب کہ اہلِ حدیث اس حدیث پر عمل کر رہے ہیں؟ جواب: یہ بات واضح ہے کہ نمازمیں خاموشی کی روایت کے راوی زید ہیں اور آیت میں ﴿وَ قُومُوا لِلّٰہِ قَانِتِین﴾ بالاتفاق مدنی ہے۔ اس سے معلوم ہوا، کہ نماز میں کلام کی حرمت کا حکم مدینہ میں آیا، لیکن کب آیا؟ اس بارے میں روایات میں تصریح موجود ہے، کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی حبشہ سے ان کی آمد اس وقت ہوئی، جب آپ ’’معرکۂ بدر‘‘ کی تیاری میں مصروف تھے اوراُس وقت نماز میں کلام کی حرمت نازل ہو چکی تھی۔
Flag Counter