Maktaba Wahhabi

396 - 829
صاحب فرماتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ سے پہلے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں پڑھنی چاہیے؟ جواب: ’’بسم اﷲ‘‘ سورہ فاتحہ کا جزء ہے۔ لہٰذا ’’سورہ فاتحہ‘‘ کے ساتھ اس کا پڑھنا ضروری ہے۔ مولوی صاحب موصوف نے ممکن ہے جَہری پڑھنے کی نفی کی ہو، کہ اسے سِرّی پڑھنا چاہیے۔ بایں صورت ان کا موقف درست ہے اور اگر وہ مطلق نفی کے قائل ہیں، تو وہ غلطی پر ہیں۔ اس موقف سے رجوع کرنا چاہیے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! تفسیر فتح القدیر وغیرہ۔ بسم اللّٰہ سرّی یا جہری؟ سوال: جہری نمازوں میں اکثر اہل حدیث خطیب سورۃ فاتحہ سے قبل بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے اور قرأت ’’الحمد‘‘ سے شروع کرتے ہیں۔ اس طرح سورۃ فاتحہ کی چھ آیات بنتی ہیں اور ساتویں آیت بسم اللہ ہے۔ شرعاً بتایا جائے کہ بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنی چاہیے یا آہستہ؟ جواب: شریعتِ اسلامیہ میں بہت سارے احکام ومسائل ایسے ہیں، جو بسم اللہ کے ساتھ مختص ہیں۔ قطع نظر اس کے ،کہ یہ سورۃ فاتحہ کی آیت ہے یا نہیں۔ اس میں بھی اہلِ علم کا اختلاف ہے ، جس کی تفصیل امام شوکانی رحمہ اللہ کی تفسیر ’’فتح القدیر‘‘ کے شروع میں دیکھی جاسکتی ہے، اگرچہ راجح مسلک یہ ہے، کہ یہ ’’الحمد‘‘ کی آیت ہے۔ لیکن اس کے آیت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا، کہ اس کو بھی لازماً جہری نمازوں میں بالجہر پڑھا جائے اور نہ ہی سرّی پڑھنے سے سورت کی آیت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے، جس طرح کہ سائل کا خیال ہے۔ سات آیات تو اپنی جگہ قائم رہتیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آیا اس کو آہستہ پڑھا جائے یا بآواز بلند ؟ اس مسئلے کا دارومدار مختلف احادیث پر ہے۔ اس بارے میں زیادہ بہتر بات یہ ہے، کہ بسملہ نماز میں آہستہ پڑھی جائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت اس بارے میں صحیح صریح ہے اور یہ کہنا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ حدیث کو بھول گئے، پھر بعد میں یاد آیا۔ اس سے حدیث کی پختگی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، جس طرح کہ مصطلح الحدیث میں معروف ہے: (( نِسیَانُ الرَّاوِی لَا یَضُرُّ صِحَّۃَ الحَدِیثِ )) ’’راوی کے بھولنے سے حدیث کی صحت متاثر نہیں ہوتی۔‘‘ بعض احادیث میں بسملہ بالجہر کا ذکر بھی ہے۔ جو اس بات پر محمول ہے کہ بعض دفعہ آپ نے بآواز بلند بھی پڑھی ہے، تاکہ مقتدیوں کو اس کی قرأت کا علم ہو جائے۔ اس طرح اس موضوع پر جملہ احادیث
Flag Counter