Maktaba Wahhabi

744 - 829
’’ امام دعا کرے اور مقتدی آمین کہے۔‘‘ امام محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں اسی بات کو اختیار کیا ہے۔ [1] دعائے قنوت کا بیان ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت کرنا: سوال: نماز کی آخری رکعت میں رکوع سے کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعاے قنوت مانگنی چاہیے یا نہیں؟ اگر سنت ہے تو مکمل حدیث اور حوالہ لکھ کر وضاحت کریں۔ جواب: ’’قنوتِ وِتر‘‘ میں ہاتھ اٹھانا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت نہیں۔ البتہ سلف سے ہاتھ اٹھانے کے آثار موجود ہیں۔ کتاب ’’قیام اللیل‘‘ امام محمد بن نصر مروزی ( باب رفع الایدی عند القنوت) بظاہر دونوں طرح جواز ہے۔ جواب:دعائے قنوت قبل از رکوع اور بعد از رکوع دونوں طرح درست ہے۔ البتہ أولیٰ بات یہ معلوم ہوتی ہے، کہ قبل از رکوع مانگی جائے۔ تین وِتر کی صورت میں ’’فصل‘‘ اور ’’وصل‘‘ دونوں طرح درست ہے۔ بہتر یہ ہے، کہ ’’فصل‘‘ کیا جائے، یعنی دو رکعت پر سلام پھیر کر، تیسری علیحدہ پڑھی جائے۔ تین رکعت اکٹھی کی صورت میں درمیانی تشہد نہ پڑھا جائے۔ کیونکہ اس سے نمازِ مغرب کے ساتھ مشابہت پید ا ہو جاتی ہے، جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے۔ قنوتِ وِتر یا قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اٹھانا اور ہاتھ منہ پر پھیرنا : سوال: قنوتِ وِتر یا قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اٹھانا کیسا ہے؟ نیز ہاتھ منہ پر پھیرنا سنت ہے یا بدعت یا جائز ؟ جواب: ’’قنوتِ نازلہ‘‘ رکوع کے بعد ہے اور اس میں ہاتھ بھی اٹھائے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو! (صحیح مسلم(۶؍۲۱۷) علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان احادیث کو ’’الإرواء‘‘ (۲؍ ۱۶۰۔۱۶۳) میں جمع کیا ہے۔ البتہ قنوت ِ وِتر رکوع سے پہلے اَولیٰ (بہتر) ہے، جب کہ رکوع کے بعد بھی جواز ہے، کیونکہ صحیح ابن خزیمہ (۱۱۰۰)میں عہدِ عمر رضی اللہ عنہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت ِنمازِ تراویح کے قصے سے معلوم ہوتا ہے، کہ وہ وتروں میں ’’دعاے قنوت‘‘ بعد از رکوع کرتے تھے ، اس کی سند صحیح ہے۔ (نماز میں) دعا کے بعد منہ پر ہاتھ
Flag Counter