Maktaba Wahhabi

296 - 829
فِی تَحدِیدِ ذٰلِکَ۔ فَقِیلَ : إِذَا مَرَّ بَینَہٗ وَ بَینَ مِقدَارِ سُجُودِہٖ۔ وَ قِیلِ : بَینَہٗ، وَ بَینَ قَدرِ ثَلٰثَۃِ اَذرُعٍ۔ وَ قِیلَ: بَینَہٗ، وَ بَینَ قَدرِ رَمیَۃٍ بَحَجَرٍ)) یعنی سامنے سے نمازی کے قریب سے نہیں گزرنا چاہیے، اور دو ہاتھوں سے تعبیر اس لیے کی گئی ہے کہ بیشتر کام ان سے سرانجام پاتے ہیں، اور اس کی حد بندی میں تین اقوال ہیں:(۱)جائے سجود تک (۲) تین ہاتھ (۳) پتھر پھینکنے کے بقدر۔ پہلا مسلک راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ بیہقی کی روایت میں سَر کو نیچے رکھنے اور نگاہ کو زمین کی طرف کرنے کا ذکر ہے اور دوسرا مسلک بھی قریب ہے، کیونکہ بعض روایات میں سُترہ کا درمیانی فاصلہ، تین ہاتھ تک بیان ہوا ہے اور تیسرا مسلک کمزور ہے، کیونکہ اس بارے میں وارد حدیث سخت ضعیف ہے۔ امام ابوداؤد نے محمد بن اسماعیل کی وجہ سے اس کو منکر قرار دیا ہے۔ یاد رہے سُترہ کے اعتبار سے چھوٹی بڑی مسجد کا کوئی فرق نہیں۔نمازی کے سامنے بیٹھا ہوا انسان دائیں بائیں ہٹ کر جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ نمازی کے لیے تشویش کا باعث نہ بنے۔ ورنہ یہ بھی گزرنے کے معنی میں ہوگا ،جس سے حدیث میں واضح طور پر روکا گیا ہے۔ نمازی کے آگے سے گزرنے کا فاصلہ: سوال: بعض لوگ نمازی کے آگے سے دو یا تین صفوں کا فاصلہ چھوڑ کر گزر جانے کو گناہ تصور نہیں کرتے کیا یہ مسئلہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو دلیل کیا ہے؟ جواب: حدیث میں نمازی کے آگے سے گزرنے کی مخالفت کے بارے میں ((بَینَ یَدَیِ المُصَلِّی)) کے الفاظ ہیں۔[1] فاصلہ کی حد بندی کا تعین نہیں۔ البتہ علامہ صنعانی نے سبل السلام(۱؍۱۴۲) میں پیشانی رکھنے کی جگہ اور پاؤں کی جگہ کادرمیانی فاصلہ مراد لیا ہے۔ بظاہر اگر کوئی محلِ سُترہ کے باہر سے گزر جائے، تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔ اس کا اندازہ تین ہاتھ کے قریب ہے۔ بیت اﷲ کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار کعبہ سے اتنے فاصلہ سے نماز ادا کی تھی۔ نمازی کے سامنے سے گزرنے سے نماز ٹوٹنا: سوال: آدمی کی نمازی کے سامنے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے یانہیں؟ جواب: نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ راجح مسلک یہی ہے۔
Flag Counter