Maktaba Wahhabi

241 - 829
یہ احادیث اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ نمازِ تہجد کا کوئی وقت متعین نہیں۔ چنانچہ اسی سے معلوم ہوا کہ تہجد کے لیے اذان بھی نہیں۔ جہاں تک بلالی اذان کا تعلق ہے، سو حدیث میں اس کے دو مقصد بیان ہوئے ہیں: ۱۔ تہجد گزار تہجد ختم کر دیں : ((لِیَرجِعَ قَائِمُکُم)) ۲۔ اور سوئے ہوئے بیدار ہو جائیں(( وَلِیُنَبِّہَ نَائِمَکُم)) [1] اس کے علاوہ تیسرا کوئی مقصد نہیں۔ دونوں اذانوں میں وقفہ کے بارے میں سنن نسائی میں ہے: ((إِنَّہٗ لَم یَکُن بَینَہُمَا إِلَّا أَن یَّنزِلَ ہٰذَا وَیَصعَدَ ہٰذَا )) [2] یعنی دونوں میں بہت کم وقفہ ہوتا تھا، اس کو مبالغے پر محمول کیا جائے تو قریبا بیس پچیس منٹ بنتے ہیں۔ سحری کی اذان کہنا سنت ہے یا بدعت؟ سوال: سحری کی اذان کہنا سنت ہے یا بدعت؟ جواب: سحری کی اذان کہنا ثابت نہیں۔ البتہ سحری کے وقت میں اذان دینا ثابت ہے۔ جس کے حدیث میں دو مقصد بیان ہوئے ہیں۔ تہجد گزار نماز سے فارغ ہوجائے، اور سویا ہوا بیدار ہو جائے۔(اور فجر کی تیاری کرلے) گویا کہ من وجہ اس اذان کا تعلق نمازِ صبح سے ہے نہ کہ تہجد یا سحری سے۔ اذان الجمعہ جمعہ کی اذان منبر کے قریب دی جائے یا مسجد کے دروزاے پر؟ سوال: جمعہ کی اذان منبر کے قریب دی جائے یا مسجد کے دروزاے پر؟ جواب: سنن ابی داؤد میں ((عَلٰی بَابِ المَسجِدِ)) کی تصریح ہے، کہ اذان خطبہ جمعہ کی مسجد کے دروازے کے پاس کہی جائے لیکن یہ روایت مدلس راوی محمد بن اسحاق کے عنعنہ کی بناء پر قابلِ استدلال نہیں۔ ’’مسند احمد‘‘ کی جس روایت میں سماع کی تصریح ہے، اس میں ((عَلٰی بَابِ المَسجِدِ))کے الفاط نہیں۔ لہٰذا منبری اذان جونسی موزوں جگہ پر دی جائے درست ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!فتاویٰ اہلِ
Flag Counter