Maktaba Wahhabi

464 - 829
عَن حُسنِھِنَّ، وَ طُولِھِنَّ )) [1] سری اور جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی قرأت : سوال: شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اﷲ صاحب، امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی جامع الترمذی کے ((بَابُ مَا جَائَ فِی تَرکِ القِرَائَ ۃِ خَلفَ الاِمَامِ اِذَا جَھَرَ الاِمَامُ بِالقِرَائَۃِ))کے حاشیہ میں یہ روایت لائے ہیں کہ: ’’ہم سے اسحاق بن منصور انصاری نے انھوں نے معن سے انھوں نے مالک سے انھوں نے ابی نعیم وہب سے سنا، کہتے تھے کہ ’’ جس نے پڑھی ایک رکعت کہ نہ پڑھے اس میں سورۃ الفاتحہ تو اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی مگر یہ کہ ہو پیچھے امام کے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (جامع الترمذی مترجم، مسجد کے احکام، باب قرأت نہ کرنے کے بیان میں جب امام جہر کرتا ہو۔(۱؍۱۵۵) ناشر محمد علی، کارخانہ اسلامی کتب خان محل دستگیر کالونی ۔کراچی) جب کہ ابن ماجہ میں مروی ہے، جابر بن عبد اﷲ کہتے ہیں کہ ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور ایک سورۃ پڑھتے تھے اور اخیر کی دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحہ پڑھتے تھے۔[2] اور علامہ سندھی حاشیہ میں حافظ ابو الحجاج المزی سے نقل کرتے ہیں کہ((ھٰذَا اِسنَادٌ صَحِیحٌ وَ رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ)) اور یہی روایت جزء القراء ۃ بیہقیء میں بھی موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں روایتوں میں کس طرح تطبیق دی جا سکتی ہے ؟ پہلی روایت کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور دوسری روایت کے بارے میں جو ابن ما جہ اور جزء القراء بیہقی میں ہے۔ علامہ سندھی کہتے ہیں: (( ھٰذَا اِسنَادٌ صَحِیحٌ وَ رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ)) آپ ہمیں یہ بتائیں کہ دونوں روایتوں میں سے کس روایت کی سند میں ضعف ہے اور عام مسلمانوں کو کیسے بتائیں کہ جابر بن عبد اﷲ کا قرأت خلف الامام کے متعلق موقف کیا تھا؟ جواب: ان دونوں روایات کے درمیان وجہ جمع یوں ہے، کہ ممکن ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا مسلک یہ ہو، کہ امام کی جہری قرأت کی صورت میں مقتدی قرأت نہ کرے۔ جس طرح کئی ایک اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں۔ البتہ سری میں مقتدی کو قرأت کرنی چاہیے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے نزدیک اس حالت کا تعلق
Flag Counter