Maktaba Wahhabi

96 - 829
وطی کا جواز ہے اور اگر دس روز کے بعد فارغ ہو تو بلا غسل بھی وطی جائز ہے، حافظ ابن حزم رحمہ اللہ اور مفسر قرطبی رحمہ اللہ نے اس کو بلا دلیل قرار دیا ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اگر زمانۂ حمل میں بھی ایامِ ماہواری جاری ہوں تو ایسی حالت میں نماز ادا کرے یا قضاء؟ سوال: مریم کو زمانہ حمل میں بھی ہر ماہ ایام ماہواری برابر جاری رہے۔ ایسی حالت میں نماز کو ادا کرے یا قضاء کرے؟ از روئے شریعت بیان فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ جواب: مریم کو اگر حمل کی مدت میں برابر ایامِ ماہواری آتے ہیں تو وہ اس کا خونِ حیض ہے، بعض اوقات حمل کی حالت میں رحم کا منہ کھل جاتا ہے۔ وہ نماز نہ پڑھے جب تک کہ اس کے ایام ماہواری میں خون آتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حاملہ عورت اگر خون دیکھے تو نماز چھوڑ دے۔ (( عَن عَائِشَۃَ زَوجِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَت فِی المَرأَۃِ الحَامِلِ تَرَی الدَّمَ اَنَّھَا تَدَعُ الصَّلٰوۃَ)) [1] یہی مذہب امام مالک رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔ لیکن حنفیہ حاملہ کے خون کو حیض قرار نہیں دیتے، یہ ان کا اجتہاد ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ جب ایامِ ماہواری میں یہ خون جاری ہے تو اس کو حیض ہی شمار کیا جائے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اثر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ والعلم عند اللّٰہ قُرُوء سے مراد حیض ہے یا طہر ؟ سوال : سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۸ میں قروء سے مراد حیض ہے یا طہر؟حنفیہ وحنابلہ نیز مالکیہ کے نزدیک بھی راحج قول یہی ہے کہ یہاں قروء سےمراد حیض ہے ۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اسی کے قائل ہیں ۔ جواب: اس بارے میں سلف کا اختلاف ہے کہ یہاں قروء سے مراد حیض ہے یا طہر ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ قروء بمعنی طہر ہے اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ جبکہ دوسری طرف خلفائے رضی اللہ عنہم اور کثیر تعداد صحابہ رضی اللہ عنہم او رتابعین رحمہم اللہ کا یہ قول ہے کہ قروء سے مرادحیض ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں کہ قراء بمعنی حیض ہے ۔ لغوی طور پر لفظ قروء مشترک المعنی ہے اور علمائے لسان عرب اور فقہائے
Flag Counter