Maktaba Wahhabi

291 - 829
عباس رضی اللہ عنہما کا منیٰ والا قصہ‘‘ اس امر کی واضح دلیل ہے۔ صحیح بخاری میں اس پر باب قائم کیا ہے: (( سُترَۃُ الاِمَامِ سُترَۃُ مَن خَلفَہٗ)) ۲۔ مقامِ ابراہیم پر اگر رَش ہو تو دوسری جگہ پیچھے ہٹ کر بھی یہ دو رکعتیں ادا ہو سکتی ہیں۔ جہاں سامنے سُترہ ممکن ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: (( مَن صَلَّی رَکعَتَیِ الطَّوَافِ خَارِجًا مِنَ المَسجِدِ، وَ صَلَّی عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَارِجًا مِنَ الحَرَمِ )) پھر حدیث اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نقل کی ہے۔ اس میں ہے (( فَلم تُصَلِّ حَتّٰی خَرَجَت )) [1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ((أی مِنَ المَسجِدِ، اَو مِن مَکَّۃَ۔ فَدَلَّ عَلٰی جَوَازِ صَلَاۃِ الطَّوَافِ خَارِجًا مِنَ المَسجِدِ۔ اِذ لَو کَانَ شَرطًا لَازِمًا : لَمَا اَقَرَّھَا النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَلٰی ذٰلِکَ )) [2] اگرچہ افضل یہ ہے ،کہ خلف المقام ان دو رکعتوں کو ادا کیا جائے۔ اسی بناء پر اس کے بعد باب قائم کیا ہے: ((بَابُ مَن صَلَّی رَکعَتَیِ الطَّوَافِ خَلفَ المَقَامِ )) مزید آنکہ بعض اہلِ علم ویسے بھی حدودِ حرم میں سُترہ کے قائل نہیں۔ا گرچہ جانب راجح اس کے خلاف ہے۔ مسجد حرام میں سترہ کا حکم: سوال: کیا مسجد حرام میں اورجہاں کثیرتعداد میں نمازی ہوں وہاں نمازی کے آگے سے گذرنے کی اجازت ہے؟ جواب: عمومِ حدیث ’’لَو یَعلَمُ المَارُّ بَینَ یََدَیِ المُصَلِّی‘‘ کا تقاضا ہے، کہ نماز ی کے آگے سے نہ گزراجائے۔لیکن بعض فقہاء نے خصوصی طور پر مسجدِ حرام میں نمازی کے آگے سے گزرنے کی اجازت دی ہے۔ ان کا استدلال ’’کَثِیربن المطلب عن ابیہ عن جدہ‘‘ کی روایت سے ہے، لیکن سنداً وہ ضعیف ہے۔ اس کے ساتھ بعض آثار کو ملا کر سہارا لیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے‘‘ کہ ہجوم کی وجہ سے وہاں سُترے کا انتظام مشکل ہے۔ فتاویٰ اسلامیہ(۱؍۲۷۹)اور فتاویٰ اہلِ حدیث میں(۲؍۱۱۷)اسی مسلک کواختیار کیا گیا
Flag Counter