Maktaba Wahhabi

316 - 829
تک پہنچتی ہے۔ اگر اس کے گھر سے مسجد تک کا فاصلہ اس کی پہنچ سے باہر ہو تو کیا اُسے مسجد میں حاضری دینا پڑے گی؟ جواب: ایسے حالات میں استطاعت کے مطابق عمل ہو گا۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا استَطَعتُم﴾ (سورۃ التغابن:۱۶) ’’اﷲ سے ڈرو جہاں تک ہو سکے۔‘‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( مَا نَھَیتُکُم عَنہُ فَاجتَنِبُوہُ ، وَ مَا اَمَرتُکُم فَأتُوا مِنہُ مَا استَطَعتُم )) [1] ’’جس چیز سے میں تمھیں منع کروں اس سے باز رہو اور جس بات کا حکم دوں تو اسے جس قدر بجا لا سکتے ہو بجا لاؤ۔‘‘ اسی طرح وہ آدمی جس کا گھر مسجد کے قریب ہو، لیکن کسی آڑ کی وجہ سے اس کو اذان سنائی نہ دے۔ عدمِ سماع کے باوجود اس کو مسجد میں آکر نماز ادا کرنی ہو گی۔ کیونکہ یہ شخص اذان سننے والے کے حکم میں ہو گا۔ جس طرح کہ اوّل الذکر شخص دُوری کی وجہ سے اذان سننے کے باوجود مسجد میں آنے کا مکلف نہیں۔ شخص ہذا حکماً ایسے ہی ہے، گویا کہ اس کو اذان سنائی نہیں دی۔ مقتدی اقتداء میں زیادہ تاخیر نہ کرے: سوال: ایک آدمی امام کے پیچھے نماز فرض ادا کرتا ہے جب امام رکوع میں یا سجدے میں جاتا ہے یا سجدہ سے سَر اٹھاتا ہے تومقتدی کافی دیر بعد سجدہ سے سَر اٹھاتا ہے۔ امام سجدہ میں پانچ بار یا سات بار تسبیح پڑھتا ہے تو ایک مقتدی ہے وہ اس سے بھی زیادہ دیر لگاتا ہے کہ امام دوسرے سجدے جا چکا ہوتا ہے اور وہ پہلے ہی سجدے میں پڑا ہے کیا ایسے آدمی کو جماعت کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ جس نے امام کی اقتداء نہیں کی۔ باقی حدیث پاک کے حوالہ سے سجدہ کی تسبیح کی تعداد بتائیں کتنی ہے؟ جواب: بلا ریب مقتدی کے جملہ افعال امام کے بعد ہونے چاہئیں۔ لیکن امام کی اقتداء سے غافل رہنا نماز کے وجود کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔ جو کسی طور درست نہیں۔ لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ تسبیحات کے لیے کوئی عدد مقرر نہیں ۔ حسبِ آسانی پڑھی جا سکتی ہیں۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَلَا دَلِیلَ عَلٰی تَقیِیدِ الکَمَالِ بِعَدَدٍ مَّعلُومٍ، بَل یَنبَغِی الاِستِکثَارُ مِنَ التَّسبِیحِ
Flag Counter