Maktaba Wahhabi

211 - 829
۳۔ کتاب الصلوٰۃ فرض نمازوں کے لیے اذان ،عام اذان اور مؤذن کے متعلق احکام ایک وقت میں ایک سے زیادہ اذانوں کا کیسے جواب دیں؟ سوال: ایک اذان کا جواب دینے کی صورت میں دوسری طرف سے اذانیں ہو رہی ہیں کیا اُن کا بھی جواب دینا پڑے گا یا ایک ہی اذان کا جواب کافی ہے؟ جواب: اصلاً تو ایک ہی اذان کا جواب ہے لیکن عمومِ حدیث ((اِذَا سَمِعتُمُ المُؤَذِّنُ، فَقُولُوا: مِثلَ مَا یَقُولُ)) [1] کے پیشِ نظر کوئی متعدد اذانوں کا جواب دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ سوال: اگر ایک ہی وقت میں تین چار اذانیں ہو رہی ہوں تو ان کا جواب کس طرح دینا چاہیے؟ جواب: بظاہر احادیث اس بات پر دال ہیں کہ صرف ایک ہی اذان کا جواب دینا کافی ہے چنانچہ ایک روایت میں ہے: (( اذِا سَمِعتُمُ المُؤذِّنَ فَقُولُوا: مِثلَ مَا یَقُولُ)) [2]’’ جب تم مؤذن کی اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے، تم بھی اسی طرح کہو۔‘‘ لیکن اس عموم کا اطلاق’’حَیعَلتَین‘‘ کے ما سوا پر ہو گا، کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحت موجود ہے کہ ’’حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ‘‘ اور ’’حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ‘‘ کی جگہ’’لَاحَولَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ کہنا ہو گا۔ زیرِ حدیث ہذا امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((قَالَ: قُل مَا یَقُولُ: وَ لَم یَقُل : مِثلَ مَا قَالَ : لِیَشعُرَ بِأَنَّہٗ یُجِیبُ بَعدَ کُلِّ کَلِمَۃٍ مِثلَ کَلِمَتِھَا)) یعنی ’’حدیث میں بصیغہ مضارع’’یقول‘‘ کے لفظ ہیں اور بصیغہ ماضی’’قَالَ‘‘ نہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ جواب ہر کلمہ کے بعد دینا ہو گا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نسائی کی روایت اس بارے مصرح ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:
Flag Counter