Maktaba Wahhabi

297 - 829
عورت کے گزرنے سے نماز کا ٹوٹنا: سوال: راقم نے مسلم شریف کی حسبِ ذیل دو احادیث پڑھیں جس میں تعارض نظر آیا۔ براہِ کرم انھیں سنتِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سمجھائیے! ((وَ عَن اَبِی ھُرَیرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ الْمَرْأَۃُ وَالْحِمَارُ وَالْکَلْبُ، وَیَقِی ذَلِکَ مِثْلُ مُؤْخِرَۃِ الرَّحْلِ)) [1] ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑ دیتے ہیں اور اس سے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند چیز بچاتی ہے۔‘‘ ۲۔ (( وَ عَن عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَت: کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُصَلِّی مِنَ اللَّیلِ، وَأَنَا مُعتَرِضَۃٌ بَینَہٗ، وَ بَینَ القِبلَۃِ کَاِعتِرَاض الجَنَازَۃ ))(متفق علیہ) [2] ’’ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھا کرتے تھے، اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان عرض کے بَل سوئی ہوتی۔ جیسا کہ جنازہ سامنے عَرض کے بل رکھا ہوتا ہے۔‘‘ حل طلب مسئلہ یہ ہے، کہ متذکرۂ بالا حدیث نمبر۱ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی بابت نماز کو توڑنے والی فرمایا ہے۔ جب کہ حدیث نمبر ۲ میں خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اس کے خلاف ہے ۔ کیا اس میں تعارض ہے؟ تطبیق ہو سکتی ہے؟۔ جواب: بظاہر متعارض احادیث میں تطبیق یوں ہے، کہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مقصود یہ ہے، کہ نمازی کے آگے سے گزرنا منع ہے، جب کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں نمازی کے سامنے لیٹنے کا جواز ہے۔ لہٰذا مُصَلّی کے آگے سے گزرنا ناجائز ہے اور اگر سامنے کوئی لیٹا ہوا ہو تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ لینا جائز ہے۔ لیٹا ہوا، گزرنے کی تعریف میں نہیں آتا۔ علاوہ ازیں اس میں بھی اختلاف ہے کہ ’’قطع صلوٰۃ‘‘ کا مفہوم نماز کا ٹوٹنا ہے یا اس کے خشوع میں کمی ہے ؟چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جمہور علمائے سلف اور خلف نے نماز ٹوٹنے کی تأویل نماز سے نقصان
Flag Counter