Maktaba Wahhabi

727 - 829
بعد بسا اوقات انفرادی نوافل کا جواز ہے، جس طرح کہ صحیح مسلم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ عام حالات میں باجماعت نوافل کو سنت ِمسلوکہ بنانے سے احتراز کرنا چاہئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل سے زیادہ تعداد کا اثبات محل نظر ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب صلاۃ التراویح از علامہ البانی رحمہ اللہ مسجدِ نبوی میں تراویح کی نماز باجماعت: سوال: مسجدِ نبوی میں تراویح کی نماز کی جماعت کب شروع ہوئی اور رکعات کی تعداد کتنی تھی۔ آٹھ یا بیس۔ دلیل حدیث سے دیں۔ اگر ۸ رکعات تھی تو پھر بیس رکعات کا اختلاف کب شروع ہوا اور سب سے پہلے کس امام یا صحابی نے اختلاف کیا؟ اور کس مسجد سے اختلاف شروع ہوا اور کس دور میں؟ حنفی لوگ آج بھی مسجد نبوی کی دلیل دیتے ہیں کہ وہاں بیس رکعات پڑھی جاتی ہیں اور مکہ مکرمہ مسجد حرام میں بھی ۲۰ رکعات پڑھائی جاتی ہیں۔ جواب: آٹھ رکعات تراویح عہدِ نبوی میں شروع ہوئیں۔ آپ زندگی بھر آٹھ ہی پڑھتے رہے، جس طرح کہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں واضح ہے۔[1] اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی اس امر کی تصریح موجود ہے۔ بیس رکعات کی نسبت لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف کی ہے لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ بسندِ صحیح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی آٹھ رکعات ہی ثابت ہیں اور حرمین شریفین میں عام نوافل کے طور پر اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری عشرہ میں مزید اضافہ کر لیتے ہیں اور ائمہ بھی بدلتے رہتے ہیں، جب کہ سعودی عرب میں حرمین شریفین کے علاوہ اکثر و بیشتر آٹھ رکعات پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ مسئلہ ہذا میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ’’انوار المصابیح‘‘ مؤلفہ مولانا نذیر احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ۔ داڑھی کٹوانے والے حافظ کے پیچھے نمازِ تراویح: سوال: ایک حافظِ قرآن نے مسجد میں تین یا چار سال تراویح میں مکمل قرآن سنایا۔ مگر اس دوران نماز میں کچھ سستی کرتا رہا نیز شعبان میں داڑھی کچھ زیادہ کر لیتا ہے بعد میں پھر چھوٹی کرتاہے۔ اس کی یہ دوخامیاں دیکھ کر چند لوگوں نے اُس کو مسجد میں تراویح پڑھانے سے روک دیا۔ لوگوں نے اُسے سمجھایا بھی مگر وہ نہ سمجھا۔ دو سال بعد اب پھر یہ حافظ قرآن کہتا ہے کہ میں ان شاء اللہ داڑھی بھی پوری
Flag Counter