Maktaba Wahhabi

755 - 829
اس حدیث سے معلوم ہوا، کہ کیفیت نازلہ عمومِ حدیث((لا تَصلُحُ فِیھَا مِن کَلَامِ النَّاسِ))سے مستثنیٰ ہے۔ لیکن بحالتِ نماز غیر عربی میں دعا اور التجا کرنا ثابت نہیں۔ دلیل پہلے گزر چکی۔ (۳) جس چیز کا نام نماز ہے، اس میں غیر عربی میں دعا نہیں ہو سکتی۔ (و قد تقدم دلیلہ) (۴) شریعت میں علی الاطلاق قیام کا اطلاق صرف پہلے قیام پر ہے۔ رکوع کے بعد والی کیفیت پر، اگرچہ بعض احادیث میں قیام کا اطلاق ہوا ہے، لیکن یہ بعد الرکوع کے ساتھ مقید ہے۔ مطلق قیام والے احکام اس پر جاری نہیں ہوتے۔ مثلاً: ۱۔ پہلے میں قرأت ہے دوسرے میں قرأت نہیں۔ ۲۔ یہ رکوع اور سجدہ میں فرق کرنے کے لیے ہے، جب کہ پہلے قیام کا نام صرف قیام ہے۔ ۳۔ اگر کسی سے کہا جائے، کہ ایک رکعت میں سجدے کتنے ہیں،تو فوراً کہے گا:’’دو‘‘ اور رکوع کتنے ہیں؟ ’’ایک ‘‘ اور قیام کتنے ہیں؟ یقینا ایک کا اظہار کرے گا۔ یہ طبعی اور عادی دلیل ہے، جب کہ بعد والے کے دوسرے ناموں میں سے اعتدال ، رفع بعد الرکوع اور فقہاء کے نزدیک قومہ بھی ہے۔ پہلے کا صرف ایک ہی نام ’’قیام‘‘ ہے۔ اس طرح دونوں قیاموں میں فرق واضح ہو گیا۔ اس بناء پر حضرت البراء سے مروی ہے: (( کَانَ رُکُوعُ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَ سُجُودُہُ، وَاِذَا رَفَعَ رَأسَہٗ مِنَ الرُّکُوعِ، وَ بَینَ السَّجدَتَینِ مَا خَلَا القِیَامَ، وَالقَعُودَ۔ قَرِیبًا مِنَ السَّوَائِ )) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع، سجود اور رکوع کے بعد اور دو سجدوں کے درمیان کا وقفہ( دورانیہ) برابر ہوتا تھا، سوائے قیام اور قعود کے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا، کہ ’’علی الاطلاق‘‘ قیام کا لفظ صرف پہلے قیام پر بولا جاتا ہے اور دوسرے پر قیام کا اطلاق بطریقِ اِلحاق ہے۔ قنوت کی دعا میں نَستَغفِرُکَ وَ نَتُوبُ اِلَیکَ کا اضافہ : سوال: قنوت کی دعا(( اَللّٰھُمَّ اھدِنِی فِیمَن ھَدَیتَ…)) میں الفاظ ((نَستَغفِرُکَ وَ نَتُوبُ اِلَیکَ…)) کا اضافہ سندھو صاحب کی تحقیق کے مطابق ثابت نہیں۔(صلوٰۃ الرسول محققہ:۳۹۶) کیا حافظ سندھوصاحب کی تحقیق درست ہے؟
Flag Counter