Maktaba Wahhabi

185 - 829
حالت بھی انتہائی کمزور ہے کیونکہ وہ مقامی ہیں اور ہم ان کے حالات سے واقف ہیں جب کہ مسجد کے نام پر ہزاروں کے حساب سے رقم جمع ہو جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو جزائے خیردے۔ جواب:(۱)مسجد سے ملحقہ کمروں میں باپردہ صورت میں ’’مدرسۃ البنات‘‘ قائم کیا جا سکتا ہے۔ تعمیر مسجد سے مقصود چونکہ ذکر الٰہی ہوتا ہے، سو وہ حاصل ہے۔ (۲)مسجد کے لیے جمع شدہ رقم بوقت ِ ضرورت تعمیر ہذا پر صرف ہو سکتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، کہ آپ نے فرمایا : ((َا عَائِشَۃُ لَولَا حِدثَانُ قَومِکِ بِالکُفرِ لَنَقَضتُ البَیتَ حَتَّی أَزِیدَ فِیہِ مِنَ الحِجرِ، فَإِنَّ قَومَکِ قَصَّرُوا فِی البِنَائِ)) [1] اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی، تو میں بیت اﷲ کا خزانہ نکال کر فی سبیل اﷲ تقسیم کردیتا، اور بیت اﷲ کا دروازہ زمین کے ساتھ ملا دیتا، اور حجر کا کچھ حصہ بیت اﷲ میں داخل کردیتا۔ ‘‘ ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بیت اﷲ کے خزانہ سے مراد وہ مال ہے، جو لوگ بیت اﷲ کی خاطر نذر دیا کرتے تھے۔ جیسے مساجد میں لوگ دیتے ہیں۔ یہ خزانہ بیت اﷲ میں اسی طرح دفن ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ یہ بیت اﷲ کی حاجت سے زائد بیکار ہے، تو خیال ہوا کہ اس کو فی سبیل اﷲ تقسیم کردیا جائے۔ لیکن کفار چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، خطرہ تھا کہ وہ کہیں بدظن نہ ہوجائیں، اس لیے چھوڑ دیا۔‘‘(فتاویٰ اہلحدیث:۱؍۳۲۳) (۳)،(۴) فی الجملہ مُعلّمین اور مُعلّمات کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی اس مَد سے ہو سکتی ہے، کیونکر یہ بھی کارِ خیر کا ایک حصہ ہے۔اور سابقہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وقف میں تصرُّف ہو سکتا ہے۔ سوا سو سال پرانی مسجد کی جگہ پر مدرسہ تعمیر کرنا: سوال: ایک خوبصورت مسجد جو سواسو سال پرانی ہے، رمضان المبارک میں زائد نمازیوں اور مُعتکفین حضرات کی وجہ سے تنگ پڑ جاتی ہے۔ کیا شرعی لحاظ سے یہ جائز ہوگا کہ اِسے گرا کر یا اِسی حالت میں لڑکیوں کے مدرسے میں تبدیل کردیا جائے اور کسی دوسری جگہ کشادہ اور بڑی مسجد تعمیر کردی جائے ۔نیز واضح رہے کہ ساتھ ہی مسجد کا ایک مکان بھی موجود ہے جسے گرا کر مسجدمیں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔
Flag Counter