Maktaba Wahhabi

394 - 829
دوسری رکعت کی ابتداء ’’اعوذ باللّٰہ‘‘ سے کرے یا ’’بسم اللّٰہ‘‘ سے ؟ سوال: آدمی پہلی رکعت مکمل کرنے کے بعد دوسری رکعت کی ابتداء ’’اعوذ باﷲ‘‘ سے کر سکتا ہے یا ’’بسم اﷲ‘‘ سے ہی کرے گا۔ جواب: بعض اہلِ علم کے نزدیک دوسری رکعت کے شروع میں بھی ’’اعوذباﷲ‘‘ پڑھنی چاہیے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ اسی بات کے قائل ہیں۔ جب کہ علامہ ابن قیم، اور امام شوکانی; وغیرہ کا مسلک اس کے برعکس ہے۔اظہر مسلک یہی ہے۔ پہلے کا صرف جواز ہے۔ پہلی رکعت کے علاوہ تمام رکعات کی ابتداء تعوذ سے یا تسمیہ سے؟ سوال: نماز میں دوسری، تیسری، چوتھی رکعت کی ابتداء تعوذ سے کرنی چاہیے یا تسمیہ سے؟ جواب: مسئلہ ہذا میں اہلِ علم کااختلاف ہے۔ امام نووی’’المجموع‘‘(۳؍۳۲۶) میں فرماتے ہیں: شوافع کا صحیح مذہب یہ ہے، کہ ’’أَعُوذُ بِاللّٰہِ‘‘ ہر رکعت میں پڑھنی مستحب ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول یہ ہے، کہ یہ پہلی رکعت کے ساتھ مخصوص ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الأوطار (۲؍۲۰۵) میں حسن، عطاء اور ابراہیم سے نقل کیا ہے، کہ ’’تعوذ‘‘ ہر رکعت میں مستحب ہے۔ قرآنی عموم سے ان کا استدلال ہے۔﴿فَاِذَا قَرَأتَ القُراٰنَ فَاستَعِذ بِاللّٰہِ ﴾(النحل:۹۸) علامہ البانی بھی اسی بات کے قائل ہیں۔ اس مسئلہ پر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ (۱؍۶۱)میں کافی مفید بحث کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: (( أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَانَ إِذَا نَھَضَ مِنَ الرَّکعَۃِ الثَّانِیَۃِ استَفتَحَ القِرَائَ، ۃَ وَ لَم یَسکُت)) [1] یعنی ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت میں اٹھتے تو بلا خاموشی قرأت کا آغاز کردیتے۔‘‘ اس سے استدلال کیا ہے کہ تعوذ صرف پہلی رکعت میں ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((فَالأَحوَطُ ، الاِقتِصَارُ عَلٰی مَا وَرَدَت بِہِ السُّنَّۃُ ۔ وَ ھُوَ الاِستِعَاذَۃُ قَبلَ قِرَائَ ۃِ الرَّکعَۃِ الأُولٰی۔ فَقَط )) [2] ’’زیادہ احتیاط والا مسلک یہ ہے، کہ جس قدر کوئی شی سنت میں وارد ہے، اسی پر اکتفا کیا جائے۔‘‘
Flag Counter