Maktaba Wahhabi

776 - 829
((أَمَّا ھٰذَا الحَدِیثُ بِھٰذَا اللَّفظِ مَرفُوعًا لَم أَجِدہُ إِلَّا فِی ھٰذَا المَوضِعِ۔ وَ ھُوَ أَشبَہُ بِأَن یَّکُونَ مِن کَلَامِ ابنِ عُمَرَ ، کَمَا سَیَأتِی مَوقُوفًا ۔ وَ یَحتَمِلُ أَن الخَطَأَ فِی رَفعِہٖ مِن مُحَمَّدِ بنِ الصَّبَاحِ، أَو مِن شَیخِہٖ عَبدِ اللّٰہِ بنِ رَجَائَ)) ’’یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ مرفوعاً مجھے نہیں مل سکی ما سوائے اس مقام کے۔ قرینِ قیاس ہے کہ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کلام ہو، جس طرح موقوف روایت عنقریب آرہی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے رفع میں محمد بن الصباح یا اس کے شیخ عبد اﷲ بن رجاء کی غلطی ہو۔‘‘ علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ حاشیہ نمبر ۳ میں فرماتے ہیں: کہ عبد اﷲ بن رجاء مکی ثقہ ہے۔ تاہم امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: کہ اہلِ علم نے کہا ہے: اس کی کتابیں ضائع ہو گئیں۔ پھراپنے حافظے سے لکھا کرتا تھا۔ اس بناء پر اس کی کئی روایات منکر ہیں۔ جہاں تک مولانا حصاروی مرحوم کے نقطہ نظر کا تعلق ہے تو اس سے موافقت مشکل امر ہے۔ تفصیل اضواء البیان کے سابقہ حوالہ میں ملاحظہ فرمائیں! دورانِ سفر مکمل نماز: سوال: کیا اس میں احتیاط نہیں کہ سفر میں قصر لازمی کر لیا جائے۔ احادیث سے تو وجوب ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلي الله عليه وسلم کے ذریعے سفر میں دو رکعت نماز فرض کی ہے۔[1] (مسلم) نواب صدیق حسن خاں بھوپالی بھی وجوب کے قائل ہیں۔ [2] جواب: جملہ دلائل کو جمع کیا جائے تو نتیجہ یہی اخذ ہوتا ہے، کہ قصر واجب نہیں۔ مطوّلات (مفصل کتب) میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی کی نماز: سوال: اگر کوئی شخص سفر میں امامت کرا رہا ہے اور وہ ظہر کی نماز میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتا ہے تو کیا مقتدی حضرات کی باقی نماز باجماعت سمجھی جائے گی؟ جواب: مسافر امام کے دو رکعت پر سلام پھیرنے کے بعد مقیم مقتدی کی باقی نماز بلاشبہ انفرادی ہے۔ لیکن وہ اپنی نیت کے اعتبار سے جماعت کے اجر و ثواب سے محروم نہیں۔
Flag Counter