Maktaba Wahhabi

840 - 829
میں تکبیرات کہہ کر اُن گزری ہوئی تکبیرات کو نظر انداز کردے کیونکہ اس پر اس وقت قرأت سننا اور فاتحہ پڑھنا فرض ہوتا ہے یا تکبیرات مکمل کرے؟ جواب: ظاہر یہی ہے، کہ مقتدی اس فوت شدہ تکبیرات کو تَرک کردے۔ لیکن ’’المغنی لابن قدامہ‘‘ میں ہے، کہ مسبوق بعد میں ان تکبیرات کی قضائی بھی دے۔ فرماتے ہیں: ((وَالمَسبُوقُ بِبَعضِ الصَّلٰوۃِ یُکَبِّرُ، إِذَا فَرَغَ مِن قَضَائِ مَا فَاتَہٗ ۔ نَصَّ عَلَیہِ۔ وَ ھٰذَا قَولُ أَکثَرِ أَھلُ العِلمِ))(۲؍۲۵۷) یعنی جس کی نماز کا کچھ حصہ فوت ہو جائے وہ فوت شدہ کی قضائی کے بعد تکبیر کہے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی تصریح کی ہے اور اکثر اہلِ علم کا قول یہی ہے اور حدیث((وَمَا فَاتَکُم فَأَتِمُّوا)) [1]سے بھی یہ استدلال ممکن ہے۔ عید کے خطبے کتنے ہیں نیز عید کا خطبہ بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر؟ سوال: کیا عید کے خطبہ میں خطیب ایک خطبہ دے کر بیٹھ کر پھر کھڑا ہو کر دوسرا خطبہ دے گا یا کہ درمیان میں نہیں بیٹھے گا بلکہ ایک ہی خطبہ دے گا؟ نیز جو علماء عید کے خطبہ کو جمعہ کے خطبہ پر قیاس کرتے ہیں ان کے اس قیاس کی کیا حیثیت ہے؟ اس سوال کا تفصیلی جواب ارشاد فرما کر عند اﷲ ماجور ہوں۔ جواب: اصلاً عید کے لیے خطبہ ایک ہے۔ دو خطبے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ امام بخاری رحمہما اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ باب قائم کیا ہے: ((بَابُ الخُطبَۃِ بَعدَ العِید)) پھر اپنی سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کرتے ہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ،ابوبکر، عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم کا عمل نقل کیا ہے: ((فَکُلُّھُم کَانُوا یُصَلُّونَ قَبلَ الخُطبَۃِ)) [2] پھر دوسری روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے: ((کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَ اَبُو بَکرِ ، وَ عُمرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنھُمَا یُصَلُّونَ العِیدَینِ قَبلَ الخُطبَۃِ )) [3] ان روایات میں وارد لفظ’’ اَلخُطبَۃِ ‘‘ سے معلوم ہوا، کہ عید کا صرف ایک خطبہ ہے۔ دو نہیں اور جو لوگ
Flag Counter