Maktaba Wahhabi

476 - 829
جواب: متعدد صحیح احادیث سے رفع یدین کرنا ثابت ہے۔ ایک مومن اور متبع سنت کے لائق نہیں، کہ اس کو ترک کرے۔ عمداً چھوڑنے سے خطرہ ہے کہ نماز میں نقص پیدا ہو جائے۔ کیا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کرنا چھوڑدیا تھا؟ سوال: کیا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کرنا چھوڑدیا تھا؟ جواب: میرے علم میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں یہ ہو کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے وقت رفع یدین کو ترک کردیا ہو۔ جب کہ اثبات کی بہت ساری روایات موجود ہیں۔ قریباً حدیث کی جملہ کتب میں مل سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں مسلمان ہوئے تھے، ان سے بھی مشکوٰۃ میں بحوالہ مسلم مروی ہے:’’باب صفۃ الصلوۃ‘‘ حتی کہ عصام بن یوسف بلخی، فقیہ، حنفی بھی رکوع کو جاتے اور اس سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کرتے تھے۔[1] پھر اسی کے مطابق وہ فتویٰ دیا کرتے تھے۔ [2] اور امام الہند شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ میں لکھا ہے: ((وَالَّذِی یَرفَعُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّن لَا یَرفَعُ۔ فَإِنَّ أَحَادِیثَ الرَّفعِ أَکثَرُ ، وَ أَثبَتُ )) یعنی جو لوگ رکوع کو جاتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کرتے ہیں۔ وہ نہ کرنے والوں سے مجھے زیادہ پیارے ہیں۔ کیونکہ رفع الیدین کی حدیثیں تعداد میں زیادہ ہیں اور ثبوت میں بھی زیادہ پختہ ہیں۔ مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی مرحوم بھی اسی بات کے قائل تھے، کہ رفع یدین عمر بھر میں کبھی کرلینا چاہیے اور مفتی کفایت اﷲ حنفی فرماتے ہیں: کہ آمین بالجہر، اور رفع یدین کرنے والوں کو بنظرِ حقارت دیکھنا درست نہیں۔ کیونکہ بہت سے صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین ان کو سنت سمجھتے ہیں۔ قاضی ثناء اﷲ صاحب پانی پتی ’’مالا بد منہ‘‘ میں رفع یدین کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ اکثر فقہاء و محدثین اثبات آں مے کنند‘‘ (بحوالہ فتاویٰ ثنائی (۱؍۵۹۷۔۵۹۸) اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی ’’سنن‘‘ میں فرمایا ہے: ’’اکثر صحابہ، تابعین اور محدثین کا اسی پر عمل ہے۔‘‘ ان نصوص اور تصریحات سے معلوم ہوا کہ رفع یدین منسوخ نہیں۔ محققین حنفیہ بھی اسی بات کے قائل ہیں اور جہاں تک نماز کے آغاز میں رفعِ یدین کا تعلق ہے، سبھی اہلِ علم متفقہ طور پر اس کے قائل ہیں۔ کسی کا اختلاف نہیں۔
Flag Counter