Maktaba Wahhabi

251 - 829
سے لوگوں کے گھروں کا دُور پڑنا۔ لہٰذا جو شخص اس علَّت اور سبب کا لحاظ کیے بغیر اذانِ عثمانی کو اختیار کرنے پر اصرار کررہا ہے، وہ ایسا کرکے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پیروی نہیں کر رہا، بلکہ وہ درحقیقت اس کی مخالفت پر تلا ہوا ہے۔ کیونکہ اس نے اذانِ عثمانی کی اس علَّت اور سبب کا اعتبار نہیں کیا، جس کی وجہ سے آپ کو یہ اذان کہلوانی پڑی تھی۔اگر یہ علَّت معقولہ آپ کے پیشِ نگاہ نہ ہوتی تو آپ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنَّت اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی سُنَّت پر اس اذان کااضافہ ہر گز نہ کرتے۔‘‘ محدثِ ہند مولانا عبید اﷲ رحمانی حفظہ اللہ نے بھی اسی رائے کو اختیار فرمایا ہے۔ملاحظہ ہو!(مِرعاۃ المفاتیح:۳؍۳۰۸) اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مقامی اور ہنگامی ضرورت(لوگوں کی کثرت اور آبادی کا دور دور تک پھیل جانے) سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنے اجتہاد سے اس اذان کو رواج دیا تھا، اور بس! لہٰذا زید کو بُرا بَھلا کہنا درست نہیں۔ رابعًا:اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسرے بڑے صحابی( رضی اللہ عنہ) اور خلیفہ راشد تھے اور آپ نے ایک مقامی اور ہنگامی ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنے اجتہاد سے یہ اذان کہلوانی شروع کی تھی۔ یہ ضرورت معقول بھی تھی، اور قابلِ اعتناء بھی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ خلیفۂ چہارم سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسے بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امام حسن بصری اور امام زہری; جیسے فقہاء تابعین رحمہم اللہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس اذان کو مسنون اور شرعی اذان تسلیم نہیں کیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل : شیخ البانی فرماتے ہیں : ((وَکَأَنَّہٗ لِذَالِکَ کَانَ عَلِیُّ بنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ وَ ھُوَ بِالکُوفَۃِ، یَقتَصِرُ عَلَی السُّنَّۃِ، وَ لَا یَأخُذُ بِزِیَادَۃِ عُثمَانَ، کَمَا فِی القرطبی(۱۸؍۱۰۰)[1] ’’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ’’دارالخلافہ‘‘ کوفہ میں خطبہ کے شروع میں پڑھی جانے والی مسنون اذان پر اکتفا فرماتے تھے، اور اذانِ عثمانی پر عمل نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ قرطبی میں ہے۔‘‘ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رائے: ((حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ قَالَ: حَدَّثَنَا ھُشَیمُ بنَ الغَازِ، عَن نَافِعٍ، عَنِ ابنِ عُمَرَ، قَالَ: الأَذَانُ
Flag Counter