Maktaba Wahhabi

90 - 829
حیض اور نفاس کی مدت کتنی ہے؟ سوال: ’’المحلّٰی‘‘ (اُردو) جلد دوم ’’کتاب الحیض والاستحاضۃ‘‘ میں ہے کہ ثقہ راوی نے اسے خبر دی کہ ایک عورت کو سترہ دن حیض آیا کرتا تھا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے زیادہ سے زیادہ مدت سترہ دن ہی سنی ہے۔ آل ماجشون کی عورتوں کی بابت روایت ہے کہ ان کو سترہ دن حیض آتا تھا۔(ص:۹۷) کیا یہ روایات صحیح ہیں؟ نیزامام ابن حزم رحمہ اللہ آگے چل کر فرماتے ہیں، نفاس کی مدت سات دن سے زیادہ نہیں۔ پھر اس باب کے آخر میں یعنی تقریبا تین صفحے بعد لکھتے ہیں: ’’اس کی مدت اور حکم سب حیض کی طرح ہے‘‘ حالانکہ آپ رحمہ اللہ ’’حیض سترہ دن تک‘‘ کے قائل تھے ۔ ان کے اقوال میں تضاد ہے! ازراہِ کرم دور فرما دیں؟ جواب: اصل بات یہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک اکثر مدتِ حیض و نفاس کے بارے میں کوئی روایت مرفوع متصل بسندِ صحیح ثابت نہیں ہو سکی۔ دونوں کے احکام چونکہ ایک جیسے ہیں اس لیے عادۃً مدتِ حیض کا اعتبار کرکے نفاس کی مدت سات دن قرار دی ہے پھر بعض عورتوں کے افعال و تجربات کی بناء پر اکثر مدتِ حیض سترہ دن کے قائل ہوگئے، لیکن مدتِ نفاس کو عادت پر برقرار رکھا۔ باعثِ تعجب یہ ہے کہ جن آثار پر انھوں نے اعتماد کیا وہ بھی محلِ نظر ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: (( قَد رُوِیَ مِن طَرِیقِ عَبدِ الرَّحمٰنِ بنِ سَعدِیٍّ اَنَّ الثِّقَۃَ أَخبَرَہٗ…)) (الخ(۱؍۳۷۶) اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ لفظ ’’رُوِیَ‘‘ بصیغہ مجہول اس اثر کے ضعف کی طرف اشارہ ہے۔ نیز لفظ’’الثقۃ‘‘سے راجح مسلک کے مطابق روایت قابلِ اعتماد نہیں ٹھہرتی جب تک راوی کے نام کی تصریح نہ ہو۔ پھر ا س کا حجت ہونا کیونکر ضروری ہے۔پھر امام احمد رحمہ اللہ سے مروی اثر بھی بصیغہ مجہول ہے۔ مزید آنکہ امام احمد رحمہ اللہ سے مشہور روایت پندرہ دن کی ہے سترہ کی نہیں۔ ملاحظہ ہو! مغنی لابن قدامۃ مع الشرح الکبیر (۱؍۲۲۴) اگرچہ بسندِ صحیح یہ مدت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ ملاحظہ ہو! التلخیص الحبیر(۱؍۲۳۲) واضح ہو کہ حیض ماہواری کے خون کا نام ہے، جب کہ استحاضہ بیماری کا خون ہے، جو رَگ پھٹنے سے آتا ہے اس کی کوئی حد بندی نہیں۔ اس اعتبار سے عورتوں کی تین قسمیں ہیں۔ ۱۔ مستحاضہ معتادہ چاہے ممیزہ ہو یا غیر ممیزہ۔
Flag Counter