Maktaba Wahhabi

257 - 829
إِجمَاعُ الأُمَّۃِ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِ عَلٰی ھٰذَا التَّرک دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ تَرکَہٗ ھُوَ السُّنَّۃُ وَ فِعلُہٗ بِدعَۃٌ مَذمُومَۃٌ )) [1] ’’ نماز جمعہ کے وقت سے پہلے لوگ جو اذان پڑھتے ہیں اور اس کو پہلی اذان کہتے ہیں اور وقت آنے پر پڑھی جانے والی اذان کو دوسری اذان کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بے اصل بات ہے جس پر نہ کبھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل کیا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا تھا۔نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اور ائمہ سلف رحمہما اللہ نے ایسا کیا، بلکہ محقق ابن الحاج کے مطابق یہ کسی حکمران کی جاری کردہ بدعت ہے۔ لہٰذا اس کا ترک شرعاً متعین ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد تشریع احکام کا عہد تھا اور اس کی ضرورت بھی تھی لیکن اس کے باوصف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو ہمیشہ ترک کیے رکھنااور اسی ترک پر آپ کا وفات پا جانا اس کے عدمِ مشروع ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کا بھی اس کے ترک پر اجماع ہے اور ان کا یہ اجماع بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اس اذان کو چھوڑ دینا ہی سنت ہے اور اس کو جاری رکھنا بدعت ہے۔‘‘ الشیخ ناصر الدین البانی کی رائے سامی: ((قَد مَضٰی أَنَّ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا زَادَ الأَذَانَ الأوَّلَ لِیَعلَمَ النَّاسُ أَنَّ الجُمُعَۃَ قَدحَضَرَت، فَاِذَا أُذِیعَ الأَذَانُ المُحَمَّدِی بِالمِذیَاعِ ، فَقَد حَصَلَتِ الغَایَۃُ الَّتِی رَمٰی إِلَیھَا عُثمَانُ بِأَذَانِہٖ، وَ اعتَقَدَ أَنَّہٗ لَو کَانَ المِذیَاعُ فِی عَھدِ عُثمَانَ، وَ کَانَ یَرَی جَوَازَ اِستِعمَالِہٖ، کَمَا نَعتَقِدُ، لَکَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِکتَفٰی بِاِذَاعَۃِ الأَذَانِ المُحَمَّدِی۔ وَأَغنَاہُ ذٰلِکَ عَن زِیَادَتِہٖ )) [2] ’’یہ ثابت ہو چکا کہ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی اذان محض اس لیے جاری فرمائی تھی تاکہ لوگوں کو جمعہ کے وقت کا علم ہو جائے۔ مگر اب ہمارے زمانہ میں ریڈیو، (لاؤڈ سپیکر وغیرہ) ایجاد ہو چکے ہیں۔ لہٰذا جب محمدی اذان ریڈیو پر نشر کی جائے گی، تو اس ایک ہی اذان کے ساتھ وہ مقصد حاصل ہو جائے گا، جس کے حصول کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اذان(عثمانی) کا اجراء فرمایا تھا۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ اگر ان کے عہدِ خلافت میں ریڈیو موجود
Flag Counter